پردہ:فتاویٰ امام احمدرضا کی روشنی میں

پردہ:فتاویٰ امام احمدرضا کی روشنی میں

تحریر: محمد حبیب القادری صمدی

شعبہ تحقیق: جامعہ عبد اللہ بن مسعود (کولکاتا)

mdhabibulqadri@gmail.com


حجاب(پردہ) ہی  وہ واحد ہتھیار ہے جس سے خواتین کا صحیح معنوں میں تحفظ ہوسکتا ہے، بغیر حجاب کے تحفظ کا خواب دیکھنا دن میں تارے دیکھنے کے مترادف ہے۔ یقینا اسلام نے دنیا سے بے حیائی کو ختم کرنے اور پاکیزہ معاشرہ عطا کرنے کے لیے  خواتین اسلام کو حجاب  کا حکم دیا ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: ’’وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلیٰ‘‘ [پ:۲۲،الاحزاب،۳۳]ترجمہ :اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔ [کنز الایمان]

تفسیر روح البیان میں ہے:‘‘یہ خطاب اگرچہ ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے لیکن اس کا حکم تمام عورتوں کو عام ہے’’۔[روح البیان،جلد:۱۱،ص:۸]اللہ رب العزت دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ہے:       یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَائِ الْمُوْمِنِیْنَ یُدْ نِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ ،ذٰلِکَ اَدْنیٰ اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَایُؤْذَیْنَ۔[پ:۲۲،الاحزاب،۵۹]ترجمہ:اے نبی اپنی بیبیوں اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں،یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں۔ [کنز الایمان]

       حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد انصار کی عورتیں سیاہ چادروں سے اپنے آپ کو ڈھانپ کر اس طرح سکون اور وقار سے باہر نکلتیں گویا ان کے سروں پر کوے ہیں ۔حضرت مجاہد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : اگر عورتیں چادریں اوڑھے ہوئے ہوں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ عصمت شعار آزاد عورتیں ہیں، اس طرح کسی فاسق کو یہ جرأت نہیں ہوتی کہ وہ انہیں ستائے یا کسی شک وشبہہ کا اظہار کرے۔ [تفسیر ابن کثیر ،جلد:سوم،ص:۸۵۳۔۸۵۴]

اور حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:  ’’المرأۃ عورۃ فاذاخرجت استشرفھا الشیطان‘‘عورت عورت ہے(یعنی چھپانے کی چیز ہے)جب وہ نکلتی ہے ،تو اسے شیطان جھانک کر دیکھتا  ہے۔(سنن ترمذی،کتاب الرضا،باب:۱۸،ج:۱،ص:۲۲۲)

پردہ کے متعلق متعدد اٰیات  کریمہ اور احادیث مبارکہ وارد ہیں۔ ہم یہاں پردہ کے چند مسائل کتب اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے نقل کریں گے۔ امام اہل سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری  فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان نے اپنے زمانہ میں پائی جانے والی جملہ خلاف سنت روایات اور تمام بدعات و خرافات کے خلاف قلمی جہاد فرمایا۔ اور جن جن  اصلاحی اقدامات کو عملی جامہ پہنایا ان میں سے پردہ بھی ہے۔آپ علیہ الرحمہ نے پردہ کے متعلق بے شمار فتاوے تحریر فرمائے، ان میں سے  چند ملاحظہ فرمائیں!اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:

 ‘‘عورت اگر کسی نامحرم کے سامنے اس طرح آئے کہ اس کے بال اور گلے اور گردن یاپیٹھ پیٹ یا کلائی یا پنڈلی کا کوئی حصہ ظاہر ہو یا لباس ایسا باریک  جو کہ ان چیزوں سے کوئی حصہ اس میں سے چمکے تو بالاجماع حرام اور ایسی وضع و لباس کی عادی عورتیں فاسقات ہیں ۔ (عرفان شریعت ، حصہ سوم،ص:۶۷،نذیر سنز پبلشر لاہور)

 فتاویٰ رضویہ میں ہے:

‘‘جیٹھ ، دیور، بہنوئی، پھپھا، خالو، چچازاد ، ماموزاد، پھپھی زاد، خالہ زاد بھائی یہ سب لوگ عورت کے لیےمحض اجنبی ہیں بلکہ ان کا ضرر نرے بیگانے شخص کے ضرر سے زائد ہے کہ محض غیر آدمی گھر میں آتے ہوئے ڈرے گا اور یہ آپس کے میل جول کے باعث خوف نہیں رکھتے ۔ عورت نرے اجنبی شخص سے دفعتا میل نہیں کھا سکتی اور ان  سے لحاظ ٹوٹا ہوتا ہے ۔ ولہٰذا جب رسول اللہ ﷺ نے غیر عورتوں کے پاس جانے کو منع فرمایا ایک صحابی  انصاری نے عرض کی یا رسول اللہ ! جیٹھ دیور کے لیے کیا حکم ہے؟ فرمایا: ‘‘الحمو الموت’’ رواہ احمد والبخاری عن عقبۃ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ جیٹھ دیور تو موت ہیں  امام احمد اور بخاری اسے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔۔(الفتاویٰ الرضویہ ، ج:۲۲،ص:۲۰۱۷، رضافاؤنڈیشن ،لاہور)

اور فتاویٰ رضویہ  ہی میں ایک سوال(کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جیسا کہ مرد کے واسطے غیر عورت کو دیکھنا حرام ہے ویساہی عورت کو غیر مرد کی طرف نظر کرنا حرام ہے۔ یا کچھ فرق ہے ؟) کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:

‘‘دونوں صورتوں کا ایک حکم کچھ فرق نہیں ۔ ‘فان نظر کل الی عورتہ الاخر محرم قطعا و کذا الی غیر العورۃ ان لم یؤمن الشھوۃ ھو الصحیح  فی الفصلین و در مختار عن التاتارخانیۃ عن المضمرات اما عند الامن فالمنع لخوف الافتنان  لفساد الزمان و فیہ ایضا یتفق الفصلان فافھم! واللہ تعالیٰ اعلم’’کیونکہ ہر ایک کا دوسرے کی عورت (یعنی مقام ستر) کو دیکھنا قطعی حرام ہے اور اسی طرح غیر جائز ستر کو دیکھنا بھی  حرام ہے جبکہ شہوت سے امن نہ  ہو ، دونوں صورتوں میں یہی صحیح ہے ۔ درمختار میں تاتار خانیہ سے بحوالہ مضمرات ہے اگر شہوت کا خطرہ نہ ہو تو پھر فتنے کی وجہ سے ممانعت ہے۔ اور یہ فساد زمانہ کی وجہ سے ہے اور اسی میں یہ بھی ہے کہ دونوں صورتیں برابر ہیں لہٰذا اس کو سمجھ لیجیے واللہ تعالیٰ اعلم۔(الفتاویٰ الرضویہ ، ج:۲۲،ص:۲۰۱/۲۰۲، رضافاؤنڈیشن، لاہور)

یونہی  عورتوں کو چوڑیاں پہننے کے لیے اپنے ہاتھوں کو غیر محرم مرد کے ہاتھ میں دینا جائز نہیں ہے۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال(کیا فرماتے ہیں علمائے  دین اس مسئلہ میں کہ اکثر عورتیں  منہار کو بلاکر پردہ میں سے ہاتھ نکال کر منہار کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر چوڑیاں پہنتی ہیں ۔ یہ جائز ہے یا نہیں ؟ اور بعض عورتیں اپنے مردوں کے سامنے منہار کے ہاتھ سے چوڑیاں پہنتی ہیں اور بعض شخص خود اپنی موجودگی میں بلا پردہ کے اپنی عورت کو چوڑیاں  پہناتے ہیں۔ یہ چوڑیاں  غیر مرد کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر خواہ پردہ میں سے یا بلا پردہ کے جائز ہے یا نہیں؟)کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:

‘‘ حرام حرام حرام ہے ہاتھ دکھانا غیر مرد  کو حرام ہے ۔ اس کے ہاتھ میں ہاتھ دینا حرام ہے جو مرد اپنی عورتوں کے ساتھ  اسے روا رکھتے ہیں دیوث ہیں۔واللہ تعالیٰ اعلم’’۔(الفتاویٰ الرضویہ ، ج:۲۲،ص:۲۴۷ ، رضافاؤنڈیشن ،لاہور)

پیر سے پردہ واجب ہے:

بہت سی مریدہ اپنے پیروں سے پردہ نہیں کرتیں اور نہ ہی پیر صاحب پردہ کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال( کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ پیر سے پردہ ہے یا نہیں ؟) کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:

‘‘پیر سے پردہ واجب ہے جبکہ محرم نہ ہوں‘‘ (احکام شریعت، حصہ دوم۔ص:۱۹۰،نظامیہ کتاب گھر لاہور)

اور فتاویٰ رضویہ میں ہے:

‘‘پردہ کے باب میں پیر  و غیر پیر ہر اجنبی کا حکم یکساں ہے جو ان عورت کو چہرہ کھول کر بھی سامنے آنا منع ہے’’۔(الفتاویٰ الرضویہ ، ج:۲۲،ص:۲۰۵،رضافاؤنڈیشن، لاہور)

نیز  فتاویٰ رضویہ  ہی میں ہے:‘‘ پردہ اس میں استاذ و غیر استاذ ، عالم و غیر عالم ، پیر سب برابر ہیں۔ نو برس سے کم کی لڑکی کو پردہ کی حاجت نہیں اور جب پندرہ برس کی ہو سب غیر محارم سے پردہ واجب، اور نو سے پندرہ تک اگر آثار بلوغ ظاہر ہوں تو واجب، اور نہ ظاہر ہوں تو مستحب خصوصا بارہ برس کے بعد بہت مؤکد کہ یہ زمانہ قرب بلوغ و کمال اشتہا کا ہے’’۔۔ (الفتاویٰ الرضویہ ، ج:۲۳،ص:۶۴۰ ، رضافاؤنڈیشن، لاہور )

اندھوں سے پردہ

جس طرح  غیر محرم  بینا سے پردہ ہے ویساہی نابینا سے بھی ۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے نامحرم عورتوں کو اندھے سے پردہ کرنے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا:

‘‘اندھے سے پردہ ویسا ہے جیسا آنکھ والے سے اور اس کا گھر میں جانا ،عورت کے پاس بیٹھنا ویسا ہی ہے جیسا آنکھ والے کا ۔ حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:‘‘افعمیا وان انتما ۔واللہ تعالیٰ اعلم’’۔ (احکام شریعت، حصہ سوم، ص:۲۴۹،نظامیہ کتاب گھر لاہور)

کافرہ عورت سے بھی پردہ واجب ہے:

اسکول ، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والی بہت سی مسلم لڑکیاں  کافرہ سہیلیوں کے ساتھ بے پردہ رہتی ہیں اور حرام کام کے مرتکب ہوتی ہیں۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

‘‘شریعت کا تو یہ حکم ہے کہ کافرہ عورت سے مسلمان عورت کو ایسا پردہ واجب ہے جیسا انہیں مرد سے، یعنی سر کے بالوں کا کوئی حصہ یا بازو یا کلائی یا گلے سے پاؤں کے گٹوں کے نیچے تک جسم کا کوئی حصہ مسلمان عورت کا کافرہ عورت کے ساتھ کھلا ہونا جائز نہیں۔ درمختار و تنویر الابصارمیں ہے:‘‘والذمیۃ کالرجل الاجنبی فی الاصح فلا تنظر الی بدن المسلمۃ’’ ذمیہ زیادہ صحیح قول میں غیر محرم مرد کی طرح ہے لہٰذا وہ کسی مسلمان عورت کے جسم کو نہ دیکھے۔ (الفتاویٰ الرضویہ، ج:۲۳،ص:۶۹۳،رضافاؤنڈیشن، لاہور)

آواز کا پردہ

عورت کی آواز بھی قابل ستر ہے ۔چونکہ مرد کے خواہش نفسانی کو بھڑکانے میں غیر محرم عورت کی آواز   بھی ایک اہم رول ادا کرتی ہے ۔ اسی لیے شریعت مطہرہ میں بآواز بلند پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں:

عورت کا خوش الحانی سے بآواز پڑھنا کہ نامحرموں کو اس کے نغمہ کی آواز جائے حرام ہے نوازل میں فقیہ ابواللیث میں ہے:

‘‘نغمۃ المرأۃ عورۃ’’ عورت کا خوش آواز کرکے پڑھنا ‘‘عورت ’’ یعنی محل ستر ہے۔

کافی امام ابولبرکات نسفی میں ہے:

‘‘لا تلبی جھرا لان صوتھا عورۃ ’’ عورت بلند آواز سے تلبیہ نہ پڑھے اس لیے کہ اس کی آواز قابل ستر ہے۔امام ابوالعباس  قرطبی کی کتاب السماع پھر بحوالہ علامہ علی مقدسی امداد الفتاح علامہ شرنبلالی پھر رد المحتار علامہ شامی  میں ہے:‘‘لا نجیز لھن  رفع اصواتھن ولا تمطیطھا ولا تلییناھا وتقطیعھا لما فی ذالک من استمالۃ الرجال الیھن وتحریک الشھوات منھم  ومن ھٰذا لم یجز ان تؤذن المرأۃ ، واللہ تعالیٰ اعلم’’

عورتوں کو اپنی آوازیں بلند کرنا انہیں لمبا اور دراز کرنا ان میں نرم لہجہ اختیار کرنا اور ان میں تقطیع کرنا (یعنی کاٹ کاٹ کر تحلیل عروض کے مطابق ) اشعار کی طرح آوازیں نکالنا ، ہم ان سب کاموں کی عورتوں کو اجازت نہیں دیتے اس لیے کہ ان سب باتوں میں مردوں کا ان کی طرف مائل ہونا پایا جائے گا۔ اور ان مردوں میں جذبات شہوانی کی تحریک پیدا ہوگی اس وجہ سے عورت کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اذان دے۔ اور اللہ سب سے بڑا عالم ہے۔ (الفتاویٰ الرضویہ ، ج:۲۳،ص:۲۴۲/۲۴۳ ، رضافاؤنڈیشن ، لاہور)مذکورہ مسائل کے  علاوہ اور بھی بہت سارے مسائل ہیں جن کو اس مختصر مضمون میں بیان  نہیں کیا جاسکتا ۔

بارگاہ خداوندی میں دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت ہم سب کو شریعت مطہرہ کا پابند بنائے اور فیضان اعلیٰ حضرت سے مالامال فرمائے۔ آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

91-8979256335


الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں


مزید پڑھیں:
  • Posts not found

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

گنبد اعلیٰ حضرت

حضور مفسر اعظم ہند بحیثیت مہتمم: فیضان رضا علیمی

یوں تو حضور جیلانی میاں علیہ الرحمہ کو اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری نے بسم اللہ خوانی کے وقت ہی جملہ سلاسل کی اجازت و خلافت مرحمت فرما دی تھی اور آپ کے والد ماجد نے بھی ۱۹ سال کی عمر شریف میں ہی اپنی خلافت اور بزرگوں کی عنایتوں کو آپ کے حوالہ کر دیا تھا لیکن باضابطہ تحریر ی خلافت و اجازت ، نیابت و جانشینی اور اپنی ساری نعمتیں علامہ حامد رضا خان قادری نے اپنی وفات سے ڈھائی ماہ قبلہ ۲۵۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔