امام احمد رضا ایک عظیم علمی شخصیت 

امام احمد رضا ایک عظیم علمی شخصیت 

از قلم :
محمد نعمت اللہ قادری مصباحی

پوہے خوشحالپور، سکندرہ، جموئی

چودہوں صدی ہجری کے اوائل میں اُفق عالم پر طلوع ہونے والا ایک عظیم علمی آفتاب جس نے اپنی ضو بار کرنوں سے اکناف عالم کو منور ومجلی کردیا، اہل باطل کی جانب سے چلائے گئے طوفانوں کے لاکھ دھول ڈالنے کے باوجود جس کی تابناکی میں ذرہ بھر بھی کمی نہ ہوئی بلکہ مزید نکھرتی اور سنورتی گئی وہ عظیم علمی شخصیت، اعلی حضرت، امام اھل سنت، مجدد دین وملت، حضرت علامہ ومولانا مفتی الحاج الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان کی ہے ۔

 اللہ رب العزت نے آپ کو بے پناہ علم و آگہی کی دولت سے نوازا تھا، بظاہر تو آپ ایک فقیہ اور مفتی تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کو فقہ کے ساتھ ساتھ درجنوں ایسے علوم میں مہارت تامہ کاملہ حاصل تھی جو تقریبا ناپید ہوچکے تھے یہی وجہ ہے آپ کو بعض علوم کا امام مانا جاتا ہے، چنانچہ حضرت علامہ عبد الحکیم اختر شاہجہاں پوری علیہ الرحمہ اپنی کتاب ” اعلی حضرت کا فقہی مقام ” میں صفحہ  64 پر تحریر فرماتے ہیں: ” امام احمد رضا خان کو دو چار نہیں بلکہ پچاس سے زیادہ علوم و فنون میں کمال مہارت حاصل تھی، کئی علوم تو ایسے ہیں جن میں آپ درجہ امامت پر فائز تھے ،کئی علوم وہ ہیں جو آپ کے ساتھ ہی دفن ہوگئے، اور ان میں مہارت رکھنا تو دور کی بات ہے ان سے ادنی سی واقفیت رکھنے والا بھی روئے زمین پر کوئی نظر نہیں آتا،  ہر علم وفن میں آپ کی متعدد تصانیف موجود ہیں ۔جس موضوع ہر قلم اٹھایا تو لکھنے کا حق ادا کردیا ۔”

خلیفہ مفتی اعظم ھند، حضرت علامہ ومولانا بدر الدین احمد قادری رضوی علیہ الرحمہ ” سوانح اعلی حضرت ” میں صفحہ 387 پر فرماتے ہیں: ” اجلہ علماء کا بیان ہے گزشتہ دو صدی، سنہ 1200ہجری، و سنہ 1300 ہجری کے اندر اعلی حضرت جیسا کوئی متبحر عالم نظر نہیں آیا چنانچہ تفسیر، حدیث، عقائد وکلام، فقہ، سلوک و تصوف، اذکار اوفاق، تاریخ، سیر، مناقب ،جفر، تکسیر، ادب، نحو ،لغت، عروض، زیجات، علم مثلث، جبر ومقابلہ، لوگارثم، ارثما طیقی، ہیئت، ہندسہ، ریاضی، توقیت، نجوم، منطق، فلسفہ، حساب، وغیرہ علوم وفنون میں آپ کی بے مثل تصانیف و حواشی آپ کے کمال تبحر و جامعیت پر شاہد عدل ہیں ۔”

 خلیفہ اعلی حضرت، ملک العلماء، حضرت علامہ ومولانا ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ نے "حیات اعلی حضرت” میں اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان کی تصنیفات کو تفصیلا نام بنام بیان فرمایا اس کے بعد فرماتے ہیں : ” یہ 34 علوم وفنون مروجہ و غیر مروجہ، درسیہ وغیر درسیہ، مشہورہ و غیر مشہورہ جن میں اکثر نہیں تو بعض کے نام سے بھی علمائے زمانہ واقف نہیں، اس علم وفن سے واقفیت تو کجا ۔ اور اعلی حضرت کے اعلی درجہ کمال کی دلیل ہے کہ اتنے علوم و فنون سے نہ صرف واقف بلکہ اس میں ماہر وکامل بلکہ صاحب تصنیف۔”

جن علوم فنون پر آپ نے بکثرت کتابیں تصنیف فرمائی انہیں مختصرا ملاحظہ فرمائیں ۔
علم فقہ پر آپ نے 150 کتابیں لکھی، علم عقائد پر 31 ، علم کلام پر 17 ، علم حدیث پر 11 ، علم مناظرہ پر 18 ، علم توقیت پر 7 ، علم الادب العربی پر 9 ، علم المناقب پر 18 ، علم الفضائل پر 30 ، علم ترغیب و ترہیب پر 21 ، علم اذکار پر 5 ۔ ان کے علاوہ بھی کثیر علوم فنون ہیں جن پر اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے قابل قدر تصانیف موجود ہیں ۔

اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان کی علمی عظمت کا اعتراف علماء و مشائخ اور عظیم دانشوروں نے بھی کیا چنانچہ تاج العلماء حضرت علامہ محمد میاں مارہروی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں : ” اعلی حضرت کو میں علامہ ابن عابدین شامی پر فوقیت دیتا ہوں، کیونکہ جو جامعیت اعلی حضرت کے ہاں ہے وہ ابن عابدین شامی کے ہاں نہیں ۔”
شاعر مشرق علامہ اقبال فرماتے ہیں : ” ہندوستان کے دور آخر میں اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ جیسا طباع اور ذہین فقیہ پیدا نہیں ہوا، میں نے ان کے فتوی کے مطالعہ سے یہ رائے قائم کی ہے اور ان کے فتوی ان کی ذہانت، فطانت، جودت طباع، کمال فقہات، علوم دینیہ میں تبحر علمی کے شاہد عدل ہیں ۔”

اپنے تو اپنے غیروں نے بھی جن کو آپ سے شدید اختلاف تھا آپ کی علمی عظمت کا اعتراف کئیے بغیر نہ رہ سکے چنانچہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں : ” اس احقر نے جناب مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کی چند کتابیں دیکھیں تو میری آنکھیں خیرہ کی خیرہ رہ گئیں ۔ حیران تھا کہ واقعی مولانا بریلوی کی ہیں؟  جن کے متعلق کل تک سنا تھا کہ وہ صرف اھل بدعت کے ترجمان ہیں اور صرف چند فروعی مسائل تک محدود ہیں،  مگر آج پتہ چلا کہ نہیں، یہ اھل بدعت کے نقیب نہیں، بلکہ یہ تو عالم اسلام کے اسکالر اور شاہکار نظر آتے ہیں، جس قدر مولانا مرحوم کی تحریروں میں گہرائی پائی جاتی ہے اس قدر گہرائی تو میرے استاذ مکرم جناب مولانا شبلی صاحب اور حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی اور حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندی اور حضرت علامہ شبیر عثمانی کی کتابوں کے اندر بھی نہیں ۔”

حاصل یہ ہے کہ اعلی حضرت، عظیم البرکت، مجدد دین وملت، پروانہ ماہ رسالت، حضرت علامہ و مولانا مفتی الحاج الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان  ( نور اللہ مقبرہ وادخلہ فی فسیح الجنان )  علم کے ایک بحر بیکراں اور فضل وکمال کے ایک نہایت ہی بلند وبالا منارے کا نام ہے، اللہ رب العزت ان کے فیضان سے ہمیں مالا مال فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ 


الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں


مزید پڑھیں:
  • Posts not found

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

گنبد اعلیٰ حضرت

حضور مفسر اعظم ہند بحیثیت مہتمم: فیضان رضا علیمی

یوں تو حضور جیلانی میاں علیہ الرحمہ کو اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری نے بسم اللہ خوانی کے وقت ہی جملہ سلاسل کی اجازت و خلافت مرحمت فرما دی تھی اور آپ کے والد ماجد نے بھی ۱۹ سال کی عمر شریف میں ہی اپنی خلافت اور بزرگوں کی عنایتوں کو آپ کے حوالہ کر دیا تھا لیکن باضابطہ تحریر ی خلافت و اجازت ، نیابت و جانشینی اور اپنی ساری نعمتیں علامہ حامد رضا خان قادری نے اپنی وفات سے ڈھائی ماہ قبلہ ۲۵۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔