اولاد کی تربیت کیسےکریں؟؟

اولاد کی تربیت کیسےکریں؟؟
    محمد روشن رضا مصباحی ازہری

اللہ رب العزت کے کارخانہ قدرت کا یہ نظام ہے کہ اس نے انسانی نسلوں کی افزائش اور توالد و تناسل کا سلسلہ دراز کرنے کے لیے زوجین کی تخلیق فرمائی ، جس کے نتیجے میں لاکھوں کروڑوں افراد اس دنیا میں آے اور اپنی زندگی گزار کر اس جہان فانی سے کوچ کر گئے،
انسانی زندگی میں اولاد کی اہمیت کتنی ہے یہ وہی بتا سکتا ہے جس کا آنگن ابھی تک بچوں کی کلکاریوں سے سونا ہے، انسان کی زندگی میں رشتہ ازدواج کے بعد اولاد کی صورت میں اللہ جو نعمت عطا فرماتا ہے اس کے حصول کے بعد والدین کے سر بارگاہ ایزدی میں سجود تشکرو امتنان کی سوغات لیے جھک جاتے ہیں اور رب کی حمد و ثنا میں وہ رطب اللسان رہتے ہیں .
ایک ماں باپ کی خوشیاں اس وقت مکمل ہوجاتی ہیں جب اس کے آنگن میں ان کے گلشن حیات کا نیا پھول اس دنیا میں آتا ہے، چاہے وہ بیٹا کی صورت میں ہو یا بیٹی کی شکل میں، اولاد کا ہر روپ والدین کے دامن کو خوشی و مسرت سے بھر دیتا ہے. 
  مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بچہ /بچی کی ولادت کے بعد والدین کی ذمہ داری قدرے بڑھ جاتی ہے، کیوں کہ اب جو چیز انہیں زیادہ حساس و متفکر بناتی ہے وہ ہے اولاد کی تربیت، ان کی تعلیم، ان کے اذہان و افکار کی سلامتی، ان کے عقائد و نظریات کی درستگی، یہ سب وہ امور ہیں جو ایک ماں باپ کو ہمیشہ ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہیں.
کیوں کہ اللہ عزوجل نے جہاں بندہ کو اپنی ذات کو جہنم کی مصیبت سے بچانے کا حکم دیا ہے وہیں پر یہ بھی ارشاد ہے کہ تم خود کو نار دوزخ سے بچالو یہ کوئی کمال نہیں ہے کمال تو تب ہے کہ تم خود بھی بچو اور اپنی صلاحیت و قیادت و تربیت سے اپنی اولاد و جمیع اہل و عیال کو بھی اس ہلاکت خیز انجام سے بچاؤ.
آج ہمارے اذہان میں یہ بات بسی ہوئی ہے کہ بچے کی تربیت کا وقت اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ باشعور ہوجاتا ہے، بولنے، چلنے، سوچنے، سمجھنے پر قادر ہوجاتا ہے، اسے صحیح و غلط کی تمیز ہوجاتی ہے تب اس کی اصلاح و تربیت کا وقت شروع ہوتا ہے. یہ سب سے بڑی کج فکری و خام خیالی ہے، بچے کی جس عمر میں آپ تعلیم و تربیت کے حوالے سے حساس ہوتے ہیں، تب تک وہ آپ کے ہاتھوں سے نکل چکا ہوتا ہے، اس کی فکر کی پختگی ہوچکی ہوتی ہے، پھر نہ تو والدین کی بات سنتا ہے اور نا ہی اپنے بڑوں کی قدر و منزلت سے آگاہ ہوتا ہے . مگر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کس کی تساہلی سے یہ سب ہوا؟یقیناً ان سب کے ذمہ دار وہ والدین و سرپرست و مربیان ہوتے ہیں جن کے زیر کفالت یہ بچے ہوتے ہیں.
چائلڈ سائیکالوجی کے ماہرین کی ایک تحقیق ہے جو بالکل معقول ہے اور واقعات کے عین مطابق ہے، وہ لوگ کہتے ہیں کہ بچہ جب رحم مادر میں ہوتا ہے، جیسے ہی پانچ، چھ مہینے ہوتے ہیں، اس کے جسم کی نشوونما شروع ہوجاتی ہے، اور اسی دم سے بچہ کی قوت سماعت بحال ہوجاتی ہے، اور وہ سب سے زیادہ جن حرکات کو سنتا ہے وہ ہے ماں کے دل کی دھڑکن کی آواز، اسی لیے وہ تاکید کرتے ہیں کہ زوجہ جب حمل سے ہو تو اس کے ساتھ سختی سے پیش نہ آئیں، بلند آواز سے چیخ چلا کر ان سے باتیں نہ کریں، کیوں کہ رحم میں پلنے والی یہ چھوٹی سی جان ان ساری باتوں کو سنتی بھی یے اور آہستہ آہستہ یہ باتیں اس کے دل و دماغ میں نقش بھی ہوجاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ کچھ بچے ولادت کے بعد زیادہ شور شرابا پسند کرتے ہیں، چیخنا چلانا،بات بات پر غصہ ہوجانا ان کی عادت بن جاتی ہے وہ چڑچڑاپن کے شکار ہوجاتے ہیں.
اوروہ ماہرین یہ بھی تاکید کرتے ہیں کہ ان ایام حمل میں بیوی کو خوش رکھا جائے، وہ غمزدہ نہ ہو، اس کی ضروریات کا حد درجہ خیال رکھا جائے کیوں کہ جب یہ ابھی خوش رہے گی تو اس کے شکم میں پلنے والی جان بھی مستقبل میں خوش رہے گی. یہی وجہ ہے کہ بعض ایسے بچے کو بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ الجھن میں رہتے ہیں ، غم و الم سے چور تنہائی کے عادی بن جاتے ہیں ، یہ سب بھی ماں باپ کے ان حرکات کے سبب ہوتا ہے جودوران ایام حمل وہ انجام دیتے ہیں.
اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بچہ یا بچی ماں کے شکم میں سن سکتے ہیں؟ یا ان کی قوت سماعت بحال ہوجاتی ہے؟ تو میں عرض کروں آپ نے سیدنا الشیخ عبد القادر الجیلانی علیہ الرحمہ کے متعلق تو سنا ہی ہوگا، اور متعدد روایات شاہد ہیں کہ جب آپ کی ولادت ہوئی تو آپ قرآن پاک کے چودہ یا پندرہ پارے کے حافظ بن کر اس دنیا میں تشریف لائے، ساری دنیا حیران و ششدر تھی کہ یہ کیسا عجوبہ ہے، یہ تو عقل سے ماورا بات ہے، مگر جب سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ نے قرآن کا حفظ کیسے کیا آپ تو ماں کے شکم میں تھے؟ تو آپ نے فرمایا :اے سوال کرنے والے سنو! اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے یہ میری ماں کی اس کرامت کا ظہور ہوا ہے جس کی بنیاد انھوں نے اس وقت رکھا تھا جب میں ان کے شکم پاک میں پروان چڑھ رہا تھا، میری والدہ ماجدہ کا یہ معمول تھا کہ وہ ہردن قرآن مقدس کی تلاوت کرتی تھیں اور ہمیشہ باوضو رہ کر اوراد و وظائف و تسبیحات میں رطب اللسان رہا کرتی تھیں، اور میں ان کی رس گھولتی ہوئی مترنم آواز کو سنتا اور بار بار سنتا اور آخر ہماری زندگی میں وہ وقت آ ہی گیا کہ اللہ نے مجھے اب اس شکم اطہر کے پر لطف و پر سکون ماحول، ممتا کی حسین چہار دیواری، شفقت و محبت کے اس مضبوط حصار سے نکال کر اس ارض گیتی پر رکھ دیا تاکہ میں اپنے مقصد تخلیق کو بروئے کار لانے کی جدوجہد کر سکوں،اپنے والد ماجد کے ان خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرسکوں جن کو انھوں نے اپنے پسینہ کے ہر قطرے کے ساتھ دیکھا تھا، اپنی مشفقہ اماں کے ان تمام ارمانوں و آرزوؤں کو پورا کر سکوں، جن کو انھوں نے ہر لمحہ میرے لیے دیکھا ہے، جب کبھی میں ان کے شکم میں حرکت کرتا تو ان کا پورا وجود تھرا جاتا و شدت تکلیف سے بیٹھ جاتی، جیسے جیسے میری نشوونما ہوتی رہی ویسے ویسے ان کی تکلیف بڑھتی رہی مگر وہ ہر درد و کرب کو یہ سوچ کر برداشت کرلیتی کہ آنے والا میرا لعل، میرا لاڈلہ میرے ان تمام ارمانوں کو پورا کرے گا جس کو میں نہ کرسکی. بالآخر ایک وہ دن بھی آیا جس دن مجھے اس دنیا میں آنا تھا اور اپنی چھوٹی نظروں سے ماں کی وہ ممتا والی صورت دیکھنی تھی جس نے سب کچھ سہہ کر بھی زبان پر حرف شکایت نہیں لایا. مگر میں جب اس دنیا میں آیا تو اللہ نے مجھے وہ اعزاز عطا فرمایا کہ میں جب پیدا ہوا تو میں ١٤/١٥پارے کا حافظ تھا.تو اس واقعہ سے واضح ہوگیا کہ بچہ شکم مادر کے اندر سننے پر قادر بھی ہوتا ہے اور وہ باتیں اس کے ذہن میں نقش بھی ہوجاتی ہیں.
اس کے بعد بچہ جب اس ارض گیتی اپنی آنکھیں کھول لے تووالدین کی اولین ذمہ داری ہے کہ سب سے پہلے جو آواز اس کی کان میں جاے و کلمہ توحید و شہادت کے ہوں، اسی لیے اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کے کلمات کہے جانے کی احادیث میں تلقین کی گئی ہے.
پھر وہ جیسے جیسے پروان چڑھنے لگے والدین کی ذمہ داری روز بڑھتی جاتی ہے. اب والدین کی ذمہ داری ہے کہ دو سال تک کم سے کم وہی احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھیں جو وہ حالت حمل میں رکھتے تھے، یعنی اس کے سامنے بلند آواز سے بات نہ کریں، فحاشی و بے حیائی کی بات اس کے کانوں تک نہ پہونچنے دیں. اور ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن کی تلاوت کثرت سے کرے، نعت رسول کے نغمات اس کو سنائے، اور جب دو سے چار سال اس کی عمر ہوجائے تو اب اس کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کے قصے، صحابہ کا عشق رسول، حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا رسول سے عشق، حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کی رسول سے والہانہ عقیدت، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی رسول سے بے انتہا محبت کے قصے سنائیں، کیوں کہ بچے کا ذہن اس عمر میں تیار ہوتا ہے وہ ہر اچھی باتوں کو ذہن میں نقش کرنے کی کوشش کرتا ہے. اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت أطفال و اولاد کے لیے ایک ضابطہ عطا فرمایا ہے. أَدِّبُوا أَولَادَكُم على ثَلاثِ خِصَالٍ: حُبِّ نَبِيِّكُم، وَحُبِّ أَهلِ بَيتِهِ، وَقِرَاءَةِ القُرآنِ. (أخرجه الديلمي في الفردوس)
اپنے بچوں کے اندر تین باتیں منتقل کردو، تین خصوصیات پر ان کی تربیت کرو. سب سے پہلے اس کے دل میں نبی کریمﷺکی محبت ڈال دو، اور اس کو یہ ذہن نشیں کرادو کہ اے میرے بیٹے! میں جو تم سے بے لوث محبت کرتا ہوں وہ اس لیے تاکہ تم میرے نبی کریم ﷺ سے محبت کرو، اگر تم ان سے عقیدت و محبت نہیں رکھو گے تو میری محبت و الفت و شفقت بھی تمھیں میسر نہیں ہوگی. انہیں کی محبت مدار ایمان ہے ،ان سے عقیدت ہی جان ایمان ہے.
دوسری یہ کہ اہل بیت اطہار رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی محبت بچے کے دل و دماغ میں راسخ کردو.
تیسری یہ کہ قرآن سے محبت کرنا سکھاؤ، قرآنی آیات و نصوص کے فضائل و خصائص و ممیزات بیان کرو تاکہ اس کے دل میں قرآن کی عظمت بیٹھ جائے.
پھر جب بچہ پانچ سے سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز کی طرف راغب کرو. مگر واضح رہے کہ بچہ سن کر کوئی چیز اپنانے کی کوشش نہیں کرے گا اگر اسے نمازی بنانا یے تو ماں کو نماز پڑھنی ہوگی، باپ کو نماز کا پابند ہونا پڑے گا، یہ تو بھول ہی جائیں آپ کہ خود تارک نماز رہیں اور بچے کو نماز کا لیکچر دے کر اس کو نمازی بنالیں گے.
یہ وہ دور ہے کہ کوئی بعید نہیں کہ بچہ کہہ دے ابو آپ تو نماز پڑھتے نہیں اور مجھے نماز کا لیکچر دیتے رہتے ہیں. والعیاذ باللہ.
اور اس کے بعد بچہ جب سن شعور کو پہونچ جائے، صحیح و غلط کے مابین خط امتیاز کھینچنے پر قادر ہوجائے تو اس کے سامنے وہی قضیہ پیش کریں، جس کو انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنے بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے پیش فرمایا اور قرآن حکیم کے اندر اللہ نے تا قیام قیامت تمام والدین کے لیے رہنما اصول کے طور پر اس کو بیان فرمایا.
حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے صاحبزادوں کو جمع فرمایا اور کہا :ماتعبدون من بعْدِي؟اے میرے فرزندوں! میرے جانے کے بعد آپ لوگ کس کی عبادت کریں گے؟ کس کے آگے تمھاری جبیں خم ہوگی؟ تو تمام فرزندوں نے بیک زبان کہا :نعبد الهك واله ابائك "اے میرے والد بزرگوار! آپ کے جانے کے بعد بھی ہم اسی کی عبادت کریں گے جو آپ کا بھی رب ہے اور آپ کے آباء و اجداد کا بھی.
 اسی طرح جب جناب حضرت سیدنا حکیم لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمایا تو پہلی چیز جو آپ نے انہیں نصیحت فرمائی وہ یہ کہ میرے نور نظر! اللہ عزوجل کے ساتھ کبھی بھی کسی کو شریک مت کرنا، یقیناً شرک بہت بڑا گناہ ہے. اللہ دنیا کے تمام گناہوں کو عفو در گذر کے پانی سے دھو سکتا ہے مگر مشرک کے شرک کو اللہ کبھی نہیں معاف فرماتا.
پھر فرماتے ہیں :اے میرے بیٹے! نماز میں تساہلی مت برتنا، زکات واجب ہو تو وقت پر زکاۃ ادا کرنا، جب کبھی کسی کو برائی کرتا دیکھو تو اس کو ضرور منع کرنا اور لوگوں کو بھلائی کا حکم دینا تاکہ ان کے بھٹکے ہوے قدم راہ راست پر آجائیں.
اور اے میرے لعل! کبھی بھی کسی سے کبرو نخوت میں ڈوب کر مونہ ٹیڑھا کرکے بات مت کرنا، جس سے ملنا خندہ پیشانی سے ملنا، اور زمین پر اکڑ کر مت چلنا کیوں کہ تمھاری حقیقت یہی مٹی ہے اسی مٹی سے تم پیدا کیے گئے ہو، پھر اسی مٹی میں تمھیں دفن کردیا جائے گا اور پھر اسی مٹی سے دوبارہ نکالے جاؤ گے.
یہ نصائح سے لبریز وہ قیمتی باتیں ہیں کہ اگر ان پر عمل درآمد ہوجائے تو نہ والدین کو شکایت کا موقع ملے گا اور نا ہی اولاد کبھی والدین کی دل شکنی و اذیت رسانی کے متعلق سوچ سکے گی.
مگر بدقسمتی سے آج ہم اپنی اولاد کو دنیاوی تعلیم سے آراستہ کرنے کی تو پیہم کوششیں کرتے ہیں مگر انہیں جہنم سے کیسے بچایا جائے اس پر کوئی توجہ نہیں ہوتی. اپنی اولاد کو ڈاکٹر، انجینئر، ایڈوکیٹ، جج بنانے کے فراق میں تو ہم ہمیشہ سرگرداں رہتے ہیں، مگر وہ قرآن بھی پڑھے، احادیث و آثار کا مطالعہ بھی کرے، سیر و تاريخ اسلام سے شناسائی بھی حاصل کرے اس طرف ہماری کوئی توجہ نہیں ہوتی. آپ بیٹے کو ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، جج، پروفیسر سب بنائیں شریعت اس کی مخالفت نہیں کرتی مگر اولین ترجیح یہ ہو کہ اچھا مسلمان اسے کیسے بنائیں؟ اس کے دل میں نبی کریمﷺکی محبت کیسے راسخ کریں؟ اگر اس پہلو کی طرف ہر والدین توجہ مبذول کر لیں تو آج جو بوڑھے ماں باپ اس بات کا رونا روتے ہیں کہ میرا بیٹا نافرمان ہوگیا، ہماری ضرورتوں کا خیال نہیں رکھتا، ہمارے ساتھ زیادتی کرتا ہے، یہ سب مسائل خود بہ خود حل ہوجائیں گے کیوں کہ بیٹا اگر پڑھے گا تو وہ یہ آیت ضرور پڑھے گا جس میں اللہ نے حکم دیا کہ اپنے والدین کو اُف تک نہ کہو، ان سے نرمی سے بات کرو.
اگر اسے قرآن پڑھنے کی سمجھ ہوگی تو وہ والدین کو اذیت رسانی تو دور وہ خود قرآنی تعلیمات کے مطابق دعا کرے گا "رب ارحمهما كما ربياني صغيرا "
اے میرے مالک! میرے والدین پر رحمتوں کے سلسلے دراز فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں ہماری تربیت فرمائی اور ہمارے اوپر رحمتوں کے سائبان بنے رہے.
اس کے بعد بچہ جب عنفوان شباب کو پہونچ جائے تو قبل اس کے کہ اس کے پاے استقامت میں لغزش آے کسی اچھے گھرانے میں دیندار و نیک خلق و خوبصورت لڑکی دیکھ کر ان کی شادی کر دی جائے، تاکہ وہ گناہوں سے بچ سکے.
مگر آج کا یہ بڑا المیہ ہے کہ شادی میں تاخیر اس لیے کی جاتی ہے کہ اس کی سروس لگ جائے، وہ اپنے پیر پر کھڑا ہوجائے جس کے منفی نتائج روز سامنے آتے ہیں، فلاں اچھے گھرانے کا لڑکا اپنی محبوبہ کے ساتھ فرار ہوگیا، فلاں دیندار گھرانے کی لڑکی اپنے عاشق کے ساتھ والدین کی مرضی کے خلاف شادی کر لی.
مگریہ سب کیوں ہوتا ہے؟ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے شادی میں بلاوجہ تاخیر.
جب اللہ نے خود ارشاد فرمایا :”اگر یہ شادی کرنے والے فقیر بھی ہوں تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کردے گا ".( النور) 
اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، شادی کرو کیوں کہ یہ عورتیں اپنی روزی ساتھ لے کر آتی ہیں، اور ساتھ ہی ان کے قدم کی برکت سے گھروں میں برکتوں کا نزول ہوتا ہے. 
اس لیے جمیع والدین سے التماس ہے کہ آپ اپنی اولاد کی تربیت اسلامی طریقے پر کریں وہ کبھی آپ کی نافرمانی نہیں کرے گی. ع
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں 
یہ جہاں چیز کیا لوح و قلم تیرے ہیں 
 
✍️محمد روشن رضا مصباحی ازہری 
 
خادم رضوی دارالافتاء، رام گڑھ

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

Kaba Sharif

میدان عرفات میں حج بھی اور محشر کی جھلک بھی!!

میدان عرفات میں حج بھی اور محشر کی جھلک بھی!! تحریر ۔۔۔۔۔۔جاوید اختر بھارتی بنی …

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔