*حضرت علامہ ابوالحقانی : حیات ونقوش

*حضرت علامہ ابوالحقانی : حیات ونقوش

فیروز القادری مصباحی


بلاشبہ ابتدائے آفرینش سے آج تک ہر عہد میں سطح عالم پر ایسی شخصیتیں جلوہ گر ہوتی رہی ہیں بے جن کی بے مثال کارکردگی، بالغ نظری، دور بینی، جد وجہد، صبر وتحمل، بلند نگاہی، وسعت قلبی، وسعت فکری خوش اخلاقی، ملنساری، شگفتہ روی، فکر وشعور کی پختگی، قوم و ملت کی ہمدردی کو دیکھ کر دنیا ان کی بارگاہ میں اپنی تمام تر عقیدتوں اور محبتوں کا خراج پیش کرتی رہی ہے اور ان کے باکمال خوبیوں اور کارناموں کی وجہ سے ان کی عبقریت کا سکہ چلتا رہا ہے –
اسی سلسلة الذهب کی ایک عظیم کڑی مناظر اہل سنت، مبلغ اسلام، خطیب عرب و عجم ،حافظ احادیث کثیرہ ،ناشر مسلک اعلی حضرت ،قاطع شرک و بدعت، آفت جان نجدیت، مفکر اسلام و سنیت، درد مند قوم وملت شہریار علم و حکمت، پیکر اخلاص والفت علمبردار مسلک اہل سنت، پیر طریقت، رہبر راہ شریعت، حضرت علامہ الحاج الشاہ محمد حسین صدیقی ابوالحقانی صاحب قبلہ علیہ الرحمۃ والرضوان کی ذات گرامی ہے –

*ولادت باسعادت*

مفکر اسلام حافط احادیث کثیرہ حضرت علامہ ابوالحقانی علیہ الرحمۃ کی ولادت ٢ دسمبر ١٩٥٦ء کو صوبہ بہار کے ضلع مدھوبنی میں ہندونیپال کی سرحد پر واقع مقام لوکہا میں ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے بزرگوں کے فیضان کرم سے ایک عظیم داعی و مبلغ کی حیثیت سے پورے عالم پر چھا گئے اور پھر آپ کی ذات بابرکات سے نہ صرف ضلع مدھوبنی کو نئی شناخت حاصلِ ہوئی بلکہ صوبہ بہار بھی متعارف ہوا –

*تعلیم وتربیت*

ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن لوکہا کے مدرسہ تنظیم المسلمين میں حاصل کیا پھر پیر طریقت و معرفت رہبر اہل سنت تاج الاسلام والمسلمين مفتی اعظم نیپال حضرت علامہ الحاج الشاہ مفتی جیش محمدصدیقی نوری ،رضوی قادری برکاتی مصباحی المعروف بہ حضور شیر نیپال علیہ الرحمۃ والرضوان نے جامعہ حنفیہ غوثیہ جنکپور دھام نیپال میں اپنی نگاہ فیض و کرم سے ظاہری و باطنی تربیت سے آراستہ فرماکر شیخ کامل، تاجدار اہل سنت، قطب عالم، مرجع العلماء و الفقہا حضرت علامہ الشاہ ابوالبرکات محی الدین جیلانی آل رحمں مصطفیٰ رضا خان مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان کی بارگاہ میں مرکز عقیدت و محبت بریلی شریف بھیج دیا جہاں چھ ماہ رہ کر وارثین علوم اعلی حضرت مجدد دین وملت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ سے کسب فیض فرماکر اعلی تعلیم کے حصول کیلئے ابوالفیض حافظ دین وملت حضرت علامہ الشاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی کی بارگاہ میں الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور تشریف لے گئے جہاں اکابرین علمائے اہل سنت اساتذہ کی بارگاہ میں رہ کر تمام مروجہ علوم عقلیہ و نقلیہ مثلاً علم فقہ، اصول فقہ، علم حدیث، اصول حدیث، تفسیر، اصول تفسیر، علم کلام،منطق، بلاغت، فلسفہ وغیرہ پر دسترس حاصل کرنے کے بعد ١٩٧٥ء میں سیدنا حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ کے پہلے عرس مقدس کے موقع پر دستار علم وفضل سے نوازے گئے-

*بیعت و خلافت*

سرکار مفتی اعظم ھند حضرت علامہ الشاہ مصطفیٰ رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ سے آپ کو بیعت کا شرف حاصل تھا اور سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ کے نامور اور شہرت یافتہ مریدوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا –

وہیں آپ کی محنت مشقت، دینی حمیت وغیرت فکر رضا کی ترویج و اشاعت میں سچی لگن، علمی وفنی مہارت، فرقہائے باطلہ کے سامنے سینہ سپر، دوراندیشی اور بلند فکری کو دیکھ کر علامہ شیخ فضل الرحمن ابن قطب مدینہ علامہ ضیاءالدین مہاجر مدنی مرید وخلیفہ امام اہل سنت مجدد دین وملت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ، حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی اختر رضا خان ازہری علیہ الرحمۃ والرضوان ،حضور مفتی اعظم نیپال علامہ مفتی جیش محمدصدیقی برکاتی مصباحی المعروف بہ شیر نیپال علیہ الرحمۃ والرضوان ،حضرت علامہ مفتی رجب علی نان پارہ، حضرت علامہ تحسین رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت علامہ سید قائم قتیل دانا پوری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ جیسےعارفین باللہ اکابرین بزرگانِ دین وملت نے آپ کو اجازت و خلافت سے نواز کر میدان رزم حق وباطل کیلئے تیار فریایا تھا-

*میدان خطابت کے شہنشاہ*

یہ بات تقریباً تمام صاحبان علم ودانش پر واضح ہیکہ حضرت علامہ ابوالحقانی علیہ الرحمۃ نہایت ذہین وفطین، محنتی، جگر سوزی کرنے والے، متحمل المزاج، بلند فکر، دور اندیش، مطالع کے بے حد شوقین، درس وتدريس کے ماہر، صاحب علم وفضل باوقار عالم دین، حافظ احادیث کثیرہ اور عالمی شہرت یافتہ خطیب اہل سنت تھے زمانہ طالب علمی سے ہی میدان خطابت میں اپنا جداگانہ مقام رکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ آپ کا خطاب جماعت اہل سنت کے اکابرین علماء فقہاء اور بزرگان دین جیسے سرکار مفتی اعظم ھند علامہ مصطفی رضا خان، حضور مجاھد ملت، حضرت علامہ مفتی رفاقت حسین، رئیس القلم حضرت علامہ ارشدالقادری، علامہ سید قائم قتیل، حضور تاج الشریعہ، حضور شارح بخاری علیھم الرحمة والرضوان کی موجودگی میں ہوتا تھا –

*ابوالحقانی کی وجہ تسمیہ*

امام اہل سنت مجدد دین وملت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ نے اپنی تمام تر کوششوں سے اہل بدعات، فرقہائے باطلہ اور بدمذہبوں کے تمام تر بدعات و خرافات اور باطل عقائد و نظریات کا اپنے نوک قلم سے قلع قمع فرمایا اور مذہب اسلام کے صاف وشفاف چہرے کواور صحیح اسلامی عقائد و اعمال کو دنیا کے سامنے پیش فرماکر اسلامی تشخص میں چھپے ناموس رسالت پر حملہ کرنے والے دین کے لٹیروں کو بےنقاب فرمایا اور ہر زمانے کیلئے ہرمیدان میں دینی سپاہیوں کو علمی ہتھیار عطا فرمادیا گزشتہ پچاس سالہ تاریخ میں پالن حقانی گجراتی سمیت باطل عقائد و نظریات کے حاملین خطباء نے جب قرآن وحديث کے غلط مفاہیم و مطالب کو پیش کرکے سیدھے سادے مسلمانوں کے عقائد کو پراگندہ کرکے گمراہیت کے دلدل میں ڈھکیلنے کی ناپاک و ناکام جسارت کی تو بڑے بڑے صاحبان علم وفن میدان خطابت میں آئے اور اپنی خطابت کے جوہر کا لوہا منوایا مگر (واہ رے علامہ ابوالحقانی علیہ الرحمۃ تیری خطابت کو سلام ) جس انداز و بیان کے ذریعے اصلاح عقائد واعمال کے عنوان سے آپ نے میدان خطابت کو سجا کر ایک نئی جہت عطا کیا وہ آپ ہی کا حصہ تھا ۔پھوہڑپن، بازارو الفاظ کے استعمال سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے چیلینج کے ساتھ گفتگو سے پہلے اپنے سینہ کو عشق مصطفیٰ کا مدینہ بناتے پھر دلکش و دلنشین انداز میں قرآن کریم کی تلاوت، کتابوں کے اسماء، جلد نمبر، ، تعیین ابواب، صفحہ نمبر، سطر نمبر کے ساتھ احادیث کا گلدستہ پیش کرتے پھر تشریح وتوضيح کے بعد مسلک رضا کی ترجمانی کرتے ہوئے برمحل اشعار رضا سے تقریر کو اس طرح سجا دیتے کہ سامعین کی حیثیت سے مجمع میں بیٹھا ہرطبقے کا ہر فرد دم بخود رہ جاتا اور جوش وجذبات سے لبریز ہوکر نعرہ تکبیر وسألت کی صدائیں بلند کرنے لگتا اس طرح سے نہ صرف آپ نے پالن حقانی کا زور توڑا بلکہ تمام باطل عقائد و نظریات کے حاملین خطاء اور صاحبان جبہ و دستار کا دنداں شکن جواب دے کر قصر باطل کو زمیں بوس کیا اور بے شمار گم گشتہ گان راہ کے سینے میں مسلک اعلی حضرت کی سچی محبت اتار دیا نتیجے میں علمائے اہل سنت نے آپ کو پالن حقانی کا باپ یعنی ابوالحقانی کے لقب سے یاد کیا اور پھر اسی لقب کے ساتھ آپ پوری زندگی شہرتوں کے آسمان پر متمکن رہے – آپ کی ہر تقریر سے فکر رضا کی خوشبو آتی تھی آپ کی زندگی کا ہر لمحہ مسلک اعلی حضرت کا ترجمان تھا شاید اسی انداز و ادا نے آپ کو پروردگار عالم کی بارگاہ سے مقبولیت کی ایسی سند دلوائی کہ تقریباً اسی بار کعبة الله اور روضة الرسول سے اذن حضوری ملتی رہی اور ایسے برکات ملے کہ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ بعد وصال قبر انور سے جنت کی خوشبو آتی ہے

*تدریسی و تنظیمی کارنامے*

بعد فراغت آپ نے جامعہ حنفیہ غوثیہ جنکپور دھام نیپال پھر دارالعلوم فیض الغرباء آرا بہار میں تقریباً دس سالوں تک بخاری شریف تک تدریسی خدمات انجام دے کر سینکڑوں علماء اہل سنت کے علمی و روحانی تشنگی کو مٹا کر سیراب کیا – پھر جہاں آپ نے تشنگان علوم کی سیرابی کیلئے اپنے آبائی وطن لوکہا میں دارالعوام رضائے مصطفیٰ کی بنا ڈال کر نونہالان اسلام کو سنوارا اور شہزادی اسلام کیلئے جامعہ فاطمة الزهراء دونار چوک دربھنگہ قائم فرماکر بنات اسلام پر احسان کیا اور خود اپنی نگرانی میں اپنے سچے جانشین شہزادے، علم مصطفیٰ کے سچے وارث نائب رسول اکرم، دین و سنیت کا سچا درد رکھنے والے، ہر مشکل گھڑی میں ثابت قدم رہنے والے، مسلک اعلی حضرت کا بےباک ترجمان، دین مصطفیٰ کا مضبوط سپاہی، چمن حافظ ملت کا شگفتہ پھول، بلند ہمت، بلند حوصلہ اور بلند فکر رکھنے والے، متحرک وفعال خوش اخلاق خوش مزاج حضرت علامہ مولانا مفتی محمد تحسین رضا مصباحی صاحب قبلہ کی نظامت میں بام عروج تک پہنچایا جس کے معیار تعلیم وتربیت سے ہر خاص وعام مطمئن ہیں وہیں اپنی بالغ نظری، وسعت قلبی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سنی جمیعت علماء دربھنگہ کمشنری اور آر ایس میموریل ہاسپٹل قائم فرماکر جگہ جگہ مسجد و مدرسوں کی بنیاد ڈال کر اپنی سرپرستی میں چلاتے رہے اور فلاحی کاموں کو انجام دیتے ہوئے بہت سی غریب بچیوں کی شادیوں میں، نیز مریضوں کے مفت فری علاج کروانے میں اہم کردار ادا کرتے رہے –

*حافظ احادیث کثیرہ اور علم حدیث*

اس بات سے کسی کو مجال انکار نہیں کہ قرآن کریم فرقان حمید مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں انسانی زندگی کے تمام شعبوں کا حل اور اس کے بارے میں رہنمائی موجود ہے مگر احادیث رسول کا سہارا لئے بغیر قرآن کریم کو سمجھنا آسان نہیں اور احادیث مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو دوسروں تک پہنچانے کا حکم خود آقائے کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے دیا ہے "بلغواعنی ولو آية” پھر أحاديث رسول کی تبلیغ کرنے والوں کو حضور نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے مژدہ سنایا "نضرالله امرأ سمع منا حديثا فحفظه حتی يبلغه”یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی پھر اسے یاد کر لیا یہاں تک کہ اسے (دوسروں تک) پہنچا دیا –علم حدیث پڑھنے، پڑھانے، مہارت رکھنے اور یاد رکھنے والوں کیلئے باضابطہ اصطلاحات مقرر ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
حدیث – رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ،صحابہ اور تابعین کے قول و فعل اور تقریر کو حدیث کہتے ہیں
طالب الحدیث – وہ مبتدی جو روایت، درایت، شرح اور فقہ کے اعتبار سے حدیث پڑھنے میں مشغول ہو –
محدث – وہ شخص جو علم حدیث میں روایة، دراية مشغول ہو اور کثیر روایات اور ان کے راویوں کے احوال پر مطلع ہو –
حافظ الحدیث – وہ محدث جو ایک لاکھ احادیث کی اسانید ومتون کا عالم ہو –
حجة في الحديث- وہ محدث جسے تین لاکھ حدیثیں آسانید و متون کے ساتھ یاد ہوں –
حاکم – وہ محدث جسے جملہ احادیث مرویہ اسانید ومتون کے ساتھ یاد ہو اور وہ راویوں کے احوال سے پوری طرح واقف ہو –
(نصاب اصول حدیث مع افادات رضویہ ،ص، ٢٠ مکتبة العلميه دعوت اسلامی)
مذکورہ اصطلاحات کی روشنی یہ بات سمجھنا آسان ہے کہ محدثین عظام اپنے حفظ وضبط کے اعتبار سے سے مختلف مراتب پر فائز ہوئے اور اپنی صلاحیت و لیاقت کے اعتبار علمی ذخائر بھی چھوڑے ان میں امام بخاری رحمة الله عليه کا مقام ارفع و اعلی اور آپ کی کتاب صحیح البخاری کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ کا درجہ حاصل ہے اس سلسلے میں امام بخاری رحمة الله عليه کا طلب علم اور جمع حدیث کیلئے بخارا سے سمرقند مکہ، مدینہ طائف، شام، مصر، جزائر، بصرہ، عراق، کوفہ، بغداد جیسے دور دراز ملکوں کا سفر کرنے کی صعوبتیں برداشت کرنا، آپکا حزم و احتیاط، ضبط واتقان اور زہد و تقوی، قابل ذکر ہے – خود امام بخاری رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہاَلْحَمْدُلِلّٰہ! میں نے”صحیح بُخاری“میں تقریباً چھ ہزار(6000)احادیث ذِکْر کی ہیں،ہر حدیث کو لکھنے سے پہلے غُسْل کرتا،دو رَکْعَت نفل نماز ادا کر تا پھر اِستخارہ کرتا،جب کسی حدیث کی صِحَّت پر دل جمتا تو اُسے کتاب میں درج کر لیتا۔(ہدی الساری، مقدمۃ، ۱/ ۱۰) (نزہۃ القاری،ص۱۳۰)
سبحان اللہ!
امام بخاری جیسے جلیل القدر محدثین نے بےشمار ملکوں کا سفر فرماکر حدیث رسول کو جمع فرماکر قرآنی احکام کو سمجھنے میں کلیدی کردار ادا فرمایا اورامام بخاری رحمة الله عليه کے فیوض وبرکات سے ان میں سے کثیر تعداد میں حدیثوں کو حفظ فرماکر حضرت علامہ ابوالحقانی رحمة الله عليه نے عرب و عجم، یورپ و ایشیا کے کم بیش پچاس ملکوں مثلاً ساؤتھ امریکہ، جرمن، ہالینڈ، دوبئی، بلجیئم، موریشیش، زمبابوے، حرارے، موزمبیق، امریکہ، ساؤتھ افریقہ، بغداد معلی، نجف، سیریا ،فلسطین، جاپان، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، سری لنکا، پاکستان وغیرہ میں احادیث مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو پہنچا کر قرآنی احکام کو سمجھایا اور حافظ احادیث کثیرہ کی حیثیت سے مسلک اعلی حضرت کا پرچم بلند فرمایا-
*تصنیف و تالیف*
ان تما تر مصروفیات کے باوجود آپ نے تصنیفی میدان میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیا ہے آپ کی رشحات قلم کے عظیم شاہکاروں میں خطبات ابوالحقانی، ضیائے حدیث، ہمارا نبی، حق کی تلوار وغیرہ زیور طبع سے آراستہ ہوکر ایک زمانے سے مقبول خاص وعام ہے اس وقت اربعین ابوالحقانی عن روایات بخاری پریس کی زینت ہے جو بہت جلد منظر عام پر ہوگی – انشاءاللہ تعالیٰ آپکے خدمات جلیلہ کا اعتراف کرتے ہوئے اکابرین اہل سنت نے اپنے مقدس ہاتھوں سے بے شمار ایوارڈ سے نوازا
جیسے:
امام احمد رضا ایوارڈ
مفتی اعظم ہند ایوارڈ
تاج الشریعہ ایوارڈ
سرکار تیغ علی ایوارڈ
سرکار مجاھد ملت ایوارڈ وغیرہ

*مریدین و معتقدین*
بلا مبالغہ پوری دنیائے سنیت حضرت علامہ ابوالحقانی صاحب قبلہ علیہ الرحمۃ سے محبت کرتی ہے وہیں ہند و نیپال سمیت افریقہ، موریشیش، زمبابوے ،ہرارے جیسے کئی ملکوں میں آپ کے مریدین و معتقدین کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے آپ جن کے عقائد و اعمال کی اصلاح فرماکر ہمیشہ مسلک اعلی حضرت پر قائم رہنے کی تلقین فرماتے رہے

*وصال*
جماعت اہل سنت کو اس وقت حافظ احادیث کثیرہ حضرت علامہ ابوالحقانی علیہ الرحمۃ جیسے قد آور شخصیتوں کی سخت ضرورت تھی اور امت مسلمہ کو آپ سے خصوصاً بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں چونکہ سابقہ کاموں کے علاوہ کئی میدانوں میں آپ نے منصوبہ بند طریقے سے کاموں کا آغاز فرمایا تھا تصنیف وتالیف کے ساتھ دینی اداروں بالخصوص جامعه فاطمة الزهراء کی تعمیر و ترقی میں ہمہ تن مصروف تھے لیکن رب تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا اور بالآخر ١٢ ستمبر ٢٠٢٠ کو شب ٨ بجکر ٤٥ منٹ پر اپنے تمام منصوبوں کو اپنے معتمد، قابل، ذی استعداد عالم دین حضرت علامہ مولانا محمد تحسین رضا مصباحی صاحب قبلہ کے حوالے فرماکر داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے –انا لله وانا اليه راجعون

ابر رحمت ان کی مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ مولی تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے طفیل حضرت قبلہ کی مغفرت فرمائے ،درجات کو بلند سے بلند تر فرمائے *آمین*- اور پسماندگان خصوصاً حضرت علامہ مولانا مفتی محمد تحسین رضا مصباحی صاحب قبلہ کو صبر و استقامت کے ساتھ خوب خوب حوصلہ عطا فرمائے *آمین* ساتھ ہی حضرت کے جملہ مریدین، معتقدین،متوسلین سے میری گزارش ہے کہ حضرت علیہ الرحمۃ کے مشن کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے حضرت علامہ محمد تحسین رضا مصباحی صاحب قبلہ کا مکمل ساتھ دیں –

فیروز القادری مصباحی
بانی و مہتمم
جامعہ نبویہ ازہری محلہ رام پور مدھواپور مدھوبنی بہار
صدر
الفلاح ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ رامپور*

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

گنبد اعلیٰ حضرت

حضور مفسر اعظم ہند بحیثیت مہتمم: فیضان رضا علیمی

یوں تو حضور جیلانی میاں علیہ الرحمہ کو اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری نے بسم اللہ خوانی کے وقت ہی جملہ سلاسل کی اجازت و خلافت مرحمت فرما دی تھی اور آپ کے والد ماجد نے بھی ۱۹ سال کی عمر شریف میں ہی اپنی خلافت اور بزرگوں کی عنایتوں کو آپ کے حوالہ کر دیا تھا لیکن باضابطہ تحریر ی خلافت و اجازت ، نیابت و جانشینی اور اپنی ساری نعمتیں علامہ حامد رضا خان قادری نے اپنی وفات سے ڈھائی ماہ قبلہ ۲۵۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔