مخدوم پاک کا دربار آفات وبلیات سے شفا یابی کا تریاق

مخدوم پاک کا دربار آفات وبلیات سے شفا یابی کا تریاق

غیاث الدین احمد عارفؔ مصباحیؔ نظامیؔ
خادم التدریس : مدرسہ عربیہ سعیدالعلوم یکما ڈپو لکشمی پور ،مہراج گنج (یوپی)


مشائخ کرام کی بارگاہوں میں حاضری بے شمار بر کات وسعادات کے حصول کا ذریعہ ہے ، اس لیے کہ اللہ کے نیک بندے جہاں ہو تے ہیں وہاں رب کی نعمتوں اور رحمتوں کا نزول ہو تا ہے ،ایسی جگہیں دلوں میں خیر کا جذبہ پیدا کرتی ہیں ،جیساکہ خود قدوۃ الکبریٰ حضرت سیدنا مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی قدس سرہ العزیز [۷۰۷ھــــ۸۲۸ھ] فر ماتے ہیں:
’’ فرائض وواجبات کی ادائیگی کے بعد اصحاب طلب کے لیے یہ بہت اہم اور ضروری ہے کہ مشائخ روزگار اور مردان نامدار کی خدمت میں اپنی عمر گراں مایہ کو صرف کرے ، اس لیے کہ ان کی ایک ملاقات سے جو فائدہ حاصل ہو تا ہے ، بہت سے چِوُّ ں اور زبردست مجاہدوں سے بھی نہیں حاصل ہوتا، خاص طور سے اپنے پیر ومرشد کی نگاہ لطف وکرم مرید کے لیے اکسیر دولت ہے، نہ معلوم کس وقت مرید ان کی نگاہ اکسیر سے کندن ہو کر صاحب اسرار بن جائے ۔ (لطائف اشرفی ار دوترجمہ، جلد اول ، ص:۶۷۲، از حضرت نظام یمنی رحمۃ اللہ علیہ)
ہر کہ خواہی ہمنشینی با خدا
اُو نشیند صحبتے با اولیاء
اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیھم جب باحیات ہوں تب بھی ان کی محافل میں شرکت باعث برکت ہے اور جب وفات پاجائیں تب بھی اللہ رب العزت ان کے وسیلوں سے اپنی رحمتوں کا فیضان جاری رکھتا ہے۔
جیساکہ حضرت شاہ عبد العزیزرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ علامہ سعد الدین تفتازانی نے شرح مقاصد میں بیان کیا ہے:
’’قبور کی زیارت سے وفات یافتوں کے پاکیزہ نفوس سے نفع حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ جسم سے جدا ہونے والے نفس اور روح کو اپنے جسم سے اور قبر سے تعلق ہوتا ہے جس میں دفن کیا جاتا ہے لہٰذا جب زندہ شخص اس قبر کی زیارت کرتا ہے اور میت کے روح کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو دونوں نفوس و ارواح کے درمیان ملاقات پائی جاتی ہے اور فیوض و برکات حاصل ہوتے ہیں۔‘‘ (شاہ عبدالعزیز، فتاویٰ عزیزی، 2: 158 )
اسی لیے تو قدوۃ الکبریٰ حضور مخدوم سمناں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:
مشائخ کا دیدار ایک ایسی عبادت ہے کہ اگر وہ فوت ہو جائے تو اس عبادت کی قضا ادا کرنے کا وقت نہیں ہے۔( لطائف اشرفی ار دوترجمہ، جلد اول ، ص:۶۷۲، از حضرت نظام یمنی رحمۃ اللہ علیہ )
ایک موقع پر حضور مخدوم سمناں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یوں ارشاد فرمایا: ہر چند کوئی شخص گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہو اور صغیرہ گناہوں سے نہ بچتا ہو ، اگر کسی درویش کی نظر کیمیا اثر اس پر پڑ جائے تو بہت جلد اس کو مناہی اور معاصی کے گرداب سے انابت وتوبہ کے ساحل پر وہ شیخ پہنچادے گا ۔( لطائف اشرفی ار دوترجمہ، جلد اول ، ص:۶۷۵، از حضرت نظام یمنی رحمۃ اللہ علیہ)
مزارت اولیا کی زیارت
اسی لیے ہم تمام اہل سنت و جماعت کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ اولیاء اللہ اور سلف صالحین کے مزارات مقدسہ کی زیارت باعث حصول سعادت ہے ،اولیا ء اللہ کی آرام گاہیں نزول رحمت وانوار کا مرکز ہوا کرتی ہیں ، ہمارے اسلاف اپنے بزرگوں کے مزارت پر چلہ کشی کر کے ان کے روحانی فیوض سے مالا مال ہوا کرتے تھے ۔
غوث العالم حضرت سید مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی قد س سرہ[۷۰۷ھــــ۸۲۸ھ] فر ماتے ہیں :
’’اکابر کی زیارت کے بعد جو مسند ارشاد پر متمکن ہیں ، اکابر کے مزارات کی بھی زیارت ضرور کر نا چاہیے کہ بعض ارباب طریقت اور اصحاب معرفت نے اپنے مقصود حقیقی ان قبور کی زیارت وملازمت سے ہی حاصل کیا ہے ۔”(لطائف اشرفی ار دوترجمہ، جلد اول ، ص:۶۸۳، از حضرت نظام یمنی رحمۃ اللہ علیہ)

مولف لطائف اشرفی حضرت نظام یمنی قدس سرہ فر ماتے ہیں :
’’حضرت قدوۃ الکبریٰ فر ماتے تھے کہ میں حضرت شیخ علاء الدولہ سمنانی قدس اللہ سرہ کی خدمت میں باریاب تھا ، کسی شخص نے شیخ قدس اللہ سرہ سے سوال کیا کہ بد ن کو خاک میں ادراک نہیں ہے ، جسم ،یہ ادراک روح سے کرتا تھا ، اب دونوں جدا ہو گئے،عالم ارواح میں کوئی حجاب نہیں ہے، ایسی صورت میں کسی قبر پر جانے سے کیا حاصل ؟ اس لیے کہ جس طرف بھی روح کی جانب توجہ کی جائے وہاں روح موجود ہو گی نہ صرف قبر میں؟ حضرت شیخ نے یہ اعتراض سن کر فر مایا کہ قبر پر جانے کے بہت سے فائدے ہیں ، ایک تو یہ کہ تم کسی سے ملاقات کے لیے جاتے ہو تو اس میں جس قدر قریب ہو گے اتنی ہی تمہاری جانب اس کی توجہ زیادہ ہو گی ، دوسرے یہ کہ جب کسی قبر پر جاؤگے اور صاحب قبر کی قبر کا مشاہدہ کروگے تو صاحب قبر بھی پورے طور پر تمہاری طرف متوجہ ہوں گے اور ان سے زیاہ فائدہ حاصل ہو گا ، نیز یہ کہ روح کے لیے ہر چند حجاب نہیں ہے اور تمام عالم اس کے لیے یکساں ہے، لیکن وہ بدن جس سے وہ ستر سال تک متعلق رہی ، وہ اسی بدن کے ساتھ محشور بھی ہو گی اور پھر ابدالآباد تک اسی بدن میں رہنا ہو گا پس روح اس جگہ کو اپنی نظر میں زیادہ رکھے گی ، بمقابلہ دوسری جگہوں کے۔” (لطائف اشرفی ار دوترجمہ، جلد اول ، ص:۶۸۴، از حضرت نظام یمنی رحمۃ اللہ علیہ )

دربار اشرف مسیحائے درد منداں
اترپردیش کا قصبہ کچھوچھا مقدسہ جسے آٹھویں صدی ہجری میں حضور فیض گنجور قدوۃ الکبریٰ سیدنا مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے قدموں کی برکت سے شاد و آباد فرمایا اور ہزاروں بے دینوں کو کلمہ شہادت کی برکات سے مالا مال فرمایا، اپنی حیات مبارکہ میں لاکھوں پریشان حالوں کی پریشانیاں دور فرمائیں اور آج جب کہ آپ اپنے مزار مبارک میں جلوہ فرما ہیں تب بھی لاکھوں لاکھ دُکھوں میں گھِرے افراد آپ کے دربار بافیض سے شفا پا رہے ہیں، اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری وساری رہے گا، آپ کا دربار ایسا دربار ہے جہاں جسمانی بیماریوں سے تو شفا ملتی ہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ آسیب، جن بھوت، پریت جیسی بلاؤں سے بھی بفضلِ الہی کامل شفا ملتی ہے ۔ آپ کے دربار پاک سے متصل "نیر کا پانی ” لاعلاج بیماریوں کے لیے اکسیر کی خاصیت رکھتا ہے ۔مزارمقدس سے متصل”نیرشریف”امراض جسمانی کے لیے باعث تریاق ہے،بتایا جاتاہے کہ اس حوض کو کھودتے وقت صوفیا کی جماعت پہلے لاالٰہ الااللّٰہ کاضرب لگاتی اور پھرپھاؤڑاچلاتی ،یہ بھی مشہورہے کہ اس میں زم زم شریف کا پانی لاکر بھراگیاتھا جس کی برکت سے آج ایک عالم اس سے فیض یاب ہورہاہے بلکہ یوں کہیے کہ عقیدت و محبت والوں کے لئے آپ کے دیار پاک کے ارد گرد بکھرے خاک کے ذرات بھی امراض باطنی وظاہری سے شفا کا وسیلہ بن جاتے ہیں ۔
صاحب مراۃ الاسرار فرماتے ہیں کہ سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ نے فرمایا کہ جو شخص خلوص دل کے ساتھ میری قبر پر آےگا ۔ ان شاء اللہ ہرگز خالی نہیں جائےگا اور اس مقام پر ولایت ظاہری اور باطنی کے عزل و نصب کے لئے اکثر رجال اللہ کا مجمع رہے گا چنانچہ یہ بات آج تک اہل بصیرت پر ظاہر ہے ۔ واضح رہے کہ جب اس فقیر کاتب حروف ( عبدالرحمٰن چشتی صابری عباسی)کے دل میں حضرت خواجہ خضر علیہ السلام اور دوسرے رجال اللہ کی زیارت کی خواہش ہوئی اور بے قرار ہوا تو حضرت خواجہ معین الدین والدین چشتی قدس سرہ نے مجھ سے فرمایا کہ میرسید اشرف جہانگیرسمنانی کے مزار پر جاؤ ۔ وہاں تمہاری مرادپوری ہوجائے گی ۔ بندہ نے عرض کیا کہ وہاں جانا ضروری ہے ۔ فرمایا ، ہاں بابا۔ حضرت حق سبحانہ تعالے نے ہر جگہ کو ایک خاص برکت اور خاصیت بخشی ہے اور ہرکام کے لئے ایک وقت مقرر فرمایا ہے ۔ پس اسی وقت ہر اس جگہ جانا چاہیے تاکہ مراد حاصل ہو ۔ پس یہ فقیر 1034 ہجری میں وہاں پہونچ کر محرم کے آخری عشرے میں معتکف ہوا۔ ایک رات حضرت خضر علیہ السلام کو دیکھا کہ حوض میں غسل کررہے ہیں لیکن ان کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ شروع نہ ہوا ۔ ایک دفعہ دوسرے عشرےماہ محرم میں حضرت خضرعلیہ السلام کو تمام رجال وقت کے ساتھ دیکھا اور قسم قسم کے فیوض حاصل کئے اسی جگہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت پاک ، بعض صحابہ کرام اور اکثر مشائخ چشت مثل خواجہ بزرگ و خواجہ قطب الاسلام ، خواجہ گنج شکر اور سلطان المشائخ وغیرہ کی زیارت ہوئی۔ نیز اس مجمع میں بہت سے بزرگان دین ظاہر و باطن کی زیارت کی ۔ یہ بھی دیکھا کہ حضرت خضرعلیہ السلام اور امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک خوبصورت اور کوتاہ قد نوجوان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈالا اور عرض کیا کہ جہانگیر بادشاہ والیِ ہندوستان بیمار ہے اور چند ایام میں اس دنیا سے چل بسے گا ۔ اس کے لڑکوں میں سے یہ نوجوان سلطنت کے قابل نظر آتاہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک اس کی پیٹھ پر پھیر کر فرمایا کہ باپ کے قائم مقام ہو جاؤ۔ اس وقت معلوم ہوا کہ وہ جوان شاہ جہان بن جہانگیر بادشاہ ہے۔ اس کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال مہربانی سے شاہ جہاں کو خواجگان چشت کے حوالہ فرمایا تاکہ اس کی حفاظت کریں ۔ نیز کمال ذرہ پروری سے اس فقیر کو ( خواجہ عبدالرحمٰن چشتی) بھی معنوی خدمت سپرد ہوئی۔ اس وقت خواجگان چشت نے اس نوجوان کے جاہ وملک کی محافظت اس فقیر کے سپرد کی اور قسم قسم کی نوازشات کی بارش ہوئی ۔ (مراۃ الاسرار صفحہ 1057)
صاحب مراۃ االاسرار خود ہی فرماتے ہیں کہ اس حکایت کا مقصد یہ ہے کہ ولایت جہانگیری کے تصرف کی وجہ سے آج تک ولایت صوری و معنوی کا عزل و نصب میر سید اشرف جہانگیر قدس سرہ کے مزار پر جاری ہے اور اکثر رجال اللہ کا مجمع رہتاہے۔
خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ اللہ رب العزت کے خاص فضل وکرم کے سبب مخدوم المشائخ ،قدوۃ الکبریٰ، سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ العزیز کا آستانہ پاک ہر طرح کی مشکلات ومصائب اور آفات و بلیات دور کرنے کا ایک اہم ٹھکانہ ہے سو جو شخص بھی اس دیار پاک پر کامل یقین اور اخلاص کے ساتھ آتا ہے ہر طرح کی پریشانیوں اور مصیبتوں سے یقینی چھٹکارا پاتا ہے ۔


الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !

الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ  (۲)جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں۔

مزید پڑھیں:

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

گنبد اعلیٰ حضرت

حضور مفسر اعظم ہند بحیثیت مہتمم: فیضان رضا علیمی

یوں تو حضور جیلانی میاں علیہ الرحمہ کو اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری نے بسم اللہ خوانی کے وقت ہی جملہ سلاسل کی اجازت و خلافت مرحمت فرما دی تھی اور آپ کے والد ماجد نے بھی ۱۹ سال کی عمر شریف میں ہی اپنی خلافت اور بزرگوں کی عنایتوں کو آپ کے حوالہ کر دیا تھا لیکن باضابطہ تحریر ی خلافت و اجازت ، نیابت و جانشینی اور اپنی ساری نعمتیں علامہ حامد رضا خان قادری نے اپنی وفات سے ڈھائی ماہ قبلہ ۲۵۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔