عید میلاد النبی ﷺ اور امارت شرعیہ کا فتوی:فکروعمل کا تضاد،ایک لمحہ فکریہ : ڈاکٹر امجدرضا امجد

عید میلاد النبی ﷺ اور امارت شرعیہ کا فتوی:فکروعمل کا تضاد،ایک لمحہ فکریہ

ڈاکٹر محمد امجدرضاامجد
قاضی شریعت مرکزی دارالقضاادارہ شرعیہ بہار پٹنہ


آج کسی مہربان نے مجھے امارت شرعیہ بہار اڑیسہ جھارکھنڈ کے ترجمان نقیب کا تازہ شمارہ [۴؍ربیع الاول ۱۴۴۳ھ مطابق ۱۱؍اکتوبر۰۲۱ ۲] بھیجا اور یہ کہاکہ اس میں بارہویں شریف کےاہتمام اور میلادالنبی ﷺ کے انعقاد کے خلاف مضمون ہے،جس کو پڑھ کر مجھے بہت تکلیف ہورہی ہے آپ اس کا ازالہ فرمائیں ۔تلاش کیاتو صفحہ ۲؍پہ مولانااحتکام الحق قاسمی سے منسوب مضمون’’جشن عید میلاد النبی کی شرعی حیثیت‘‘ پر نظر پڑی،مضمون پڑھ کر مجھے نقیب کا شمارہ بھیجنے والے کی خلش کا واقعی اندازہ ہوا ۔
حلقہ دیوبند کی طرف سے میلاد النبی کے خلاف اس طرح کے مضامین آتے ہی رہتے ہیں اور ان کے جوابات بھی علمائے حق کی طرف سے انہیں ملتےبھی رہے ہیں یہ الگ بات کہ نہ ان کی طرف سے محبت رسول کااظہارکرنے والوں پہ تیرکی بوچھار میںکمی آئی اور نہ پیغمبر اسلام کی حرمت پہ قربان ہوجانے والے سنی علماوعوام نے اپنے جذبات کے اظہار میں کوئی کمی آنے دی ۔بالکل ’’دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی‘‘ کامعاملہ ہے۔ہم دائرہ شریعت میں رہ کراظہار محبت کاکوئی موقع جانے دینانہیں چاہتے اور وہ قرآن واحادیث کاغلط حوالہ دے کر اوراپنی طبیعت کا مفہوم نکال کر رسالت مأب ﷺکی تنقیص کا کوئی عمل چھوڑنا نہیں چاہتے ع
پسند اپنی اپنی ہے جام اپنا اپنا
شاید یہ دنیاکی واحد قوم ہے جو اپنے پیغمبر کی عظمت کے اظہار پہ ناک بھؤں چڑھاتی ہے اور جوسمجھائے اسے اپنا سب سے بڑادشمن جانتی ہے۔
مذکورہ بالااس دل خراش مضمون کے علاوہ نقیب کے مدیر نے ’’ماہ ربیع الاول‘‘ کے عنوان کے تحت ایک جملہ میںاپنابھی نظریہ پیش کردیاہے ان کا یہ ایک جملہ ان کا نظریہ جاننے کے لئے ایسا ہی کافی ہے جیسے بخار ناپنے کے لئے ننھامُناتھرمامیٹر۔لکھتے ہیں:
اس ماہ میں بہت سارے ایسے کام ہوتے ہیں جن کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں(۳)
اب اس ’’بہت سارے خلاف شریعت کام‘‘کی تفصیل صاحب سےکون پوچھے ؟اس بے سروپاالزامات پر اظہار معذرت کے بجائے،فورا اتحادکا مخالف کہہ کر عوام کی نگاہ میں مجرم بنادیں گے کہ دیکھئے صاحب!’’ملک کدھر جارہاہے،شعائر دینی خطرے میں ہے،اسلام بچانا مشکل ہورہاہے ،ابھی اتحاد کی کتنی ضرورت ہے مگر یہ لوگ ایسے ماحول میں بھی اختلاف کی بات لئے بیٹھے ہیں‘‘مگر کوئی ان سے یہ نہیں پوچھے گا کہ اتحاد ضروری تھاتو ایسا مضمون ہی کیوں لکھا چھاپا؟چلئے بھائی ،آپ کی شیرہ لگائی پہ ہم کچھ نہیںکہیں گے ۔صرف بیچارہ خلش زدہ انسان کی تسکین کےلئے ’’نقیب ‘‘میں اٹھائے گئے سوال کے حوالہ سے دوچار باتیں کرلیتے ہیں ۔
مضمون نگار احتکام الحق قاسمی نے نقیب کے مذکورہ شمارہ میںلکھاہے :
جب تاریخ وفات ۱۲؍ربیع الاول ہے تو اس تاریخ میں جشن کس طرح منایاجارہاہے ۔وفات پر یا ولادت پر ؟اس تاریخ میں سانحہ ارتحال امت کے لئے بڑاسانحہ ہے، اس سے بڑھ کر کوئی حادثہ نہیں ہوسکتااور حادثہ کے موقع پر جشن منانا ایک سچے محب رسول کے شایان شان نہیں ہے۔
جشن ولادت منانے کاثبوت دوردور تک کتاب وسنت ،صحابہ کرام تابعین وسلف صالحین سے نہیں ملتا۔یہ بعد کے لوگوں کی ایک من گڑھت ایجاد ہے جو آپ ﷺ کے ارشادمبارک من احدث فی امرناھٰذامالیس منہ فھو رد(صحیح بخاری) اوروایاکم ومحدثات الامور فان کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ(ابوداؤد)کامصداق ہے۔یعنی ہر نئی چیز مردود ہے اور ہر نئی چیز بدعت اور ہر بدعت گمراہی ہے
حضور ﷺکا یوم ولادت مناناغیروں کے برتھ ڈے منانے کے مشابہ ہےاور آپ ﷺ نے غیروں کی مشابہت سے احتراز کاحکم دیاہے ’’من تشبہ بقوم فھو منھم (سنن ابوداؤد)
یہ ایک مضمون ہی نہیں ،فرقہ دیوبند کے تمام چھوٹے بڑے اسی فکر کے حامل ہیں کہ جشن عید میلاد النبی منانا، ناجائزہے ،بدعت ضلالہ ہے ’’کنہیاکاجنم دن منانے سے بد ترہے‘‘(معاذ اللہ )
دنیامیں ایسے کتنے مسائل ہیں جو متفقہ طور پہ بدعت ہیں۔فسق ہیں،ناجائز وحرام ہیں۔مگر اس کے کبیرہ ہونے کے باوجوداس کے خلاف حلقہ دیوبند کی طرف سے اتنی شدت کامظاہرہ نہیں دیکھاجاتا، جتنی بارہویں شریف کے اہتمام اور محفل میلاد النبی کے انعقادکےخلاف دیکھاجاتا ہے ۔ داڑھی ترشوانے ؍منڈوانے ،شراب نوشی،قماربازی،مطالبہ جہیز،بے پردگی ،اختلاط مردوزن اور دیگر کبیرہ جرائم کے ارتکاب پہ ان کے مضامین دیکھ لیجئے ۔اول تو ایسے مضامین میلادالنبی کے بالمقابل کم ہی ملیں گے، مل بھی جائیں تو ایسے کسی مضمون میںان اعمال کےحوالہ سےبدعت ،بدعت ضلالہ اور ہر بدعت گمراہی کاحکم نہیں کے برابرملے گا۔اب یہ دورنگی کیوں ہے اس کاجواب تواہل امارت ہیں دیں گے ۔ میں تو صرف اس تضاد بیانی کے حوالہ سے اپنی بات عرض کررہاتھاکہ امارت کے ترجمان نقیب [۴؍ربیع الاول ۱۴۴۳ھ مطابق ۱۱؍اکتوبر۲۰۲۱۴ ]میں میلاد النبی ﷺ کو ناجائز ،بدعت ضلالہ اورکفار کے مشابہ کہاگیا۔مگر اسی امارت شرعیہ کے پہلے مجموعہ فتاویٰ ’’فتاویٰ امارت شرعیہ‘ ‘میں ’’باب الشرک والبدعت ‘‘کے تحت صفحہ ۳۸؍پر ایک فتویٰ اسی امارت سے شائع کیاگیاہے جومیلاد النبی کے حوالہ سے ہے،اورجس میں میلاد النبی کوجائز ہی نہیںکارثواب بھی کہاگیاہے ،ملاحظہ کیاجائے :
بارہویں ربیع الاول شریف میں اکثر اہل سنت وجماعت مجلس میلاد شریف منعقد کرکے رسول اللہ ﷺ کے فضائل وکمالات اور ان کے اخلاق حسنہ وتعلیمات کو بیان کرکے اور سن کر ایمان تازہ کرتے ہیں اور اپنے دلوں میں محبت رسول کا جذبہ پیداکرکے ان کے نقش قدم پہ چلنے کا مصمم ارادہ کرتے ہیں۔ درود شریف کثرت سے پڑھ کر سعادت دارین حاصل کرتے ہیں یہ بہت ثواب کاکام ہے بنظرایصال ثواب وحصول برکت ،شیرینی تقسیم کی جائے یاکھانا کھلایاجائے یہ بھی جائز ہے‘‘
مذکورہ بالا فتویٰ میں خط کشیدہ الفاظ کو بار بار پڑھا جائے پھر بتایاجائے:
(۱) مولانا سجاد صاحب (مفتی امارت )کے دور میں اگراہل امارت کے نزدیک، میلاد شریف کا انعقاد ’’بہت ثواب کاکام‘‘ تھا تو اب یہی کام بدعت و گمرہی اور ناجائز کیسے ہوگیا ؟
(۲) ان کے دور میں اگر میلاد النبی کا عمل ’’ایمان تازہ کرنے‘‘اور’’محبت رسول کاجذبہ پیداکرنے‘‘کاذریعہ تھا پھرآج کفار کے مشابہ عمل کیسے ہوگیا ؟
(۳) اس تضادبیانی کا بھی اہل امارت جواب دیں کہ اگر امارت کے نزدیک جشن عید میلاد النبی ﷺ بدعت وگمرہی اور ناجائز ہے تو میلاد النبی کے انعقاد کوجائز ہی نہیں کار ثواب بتانے والے مولانا ابوالمحاسن محمد سجادصاحب پرکیاحکم ہے؟اور اگر ان کا فتویٰ صحیح ودرست ہے تو ایک جائز کو ناجائز ،کار ثواب کو گمرہی اور کفار کے عمل کے مطابق بتانا شرعی جرم ہے کہ نہیں ؟——-کیایہ امید کی جائے کہ اہل امارت اس معمہ کی وضاحت فرمائیں گے یا پھراحساس جرم کے بعداس جرأت پر اعلانیہ توبہ ورجوع کریں گے ؟
نقیب کے اسی شمارہ کے ص ۶ پرجناب رضوان احمدندوی کا مضمون ’’امارت شرعیہ ملک کی ایک دینی وشرعی تنظیم ‘‘شامل ہے۔ اس میںانہوں نے لکھاہے :
۱۳۳۹ھ میںحضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ نے اس فریضہ دینی کی طرف علماکو متوجہ کیا، اجتماعی نظام کے قیام کی دعوت دی اور مولاناابوالکلام آزاد حضرت مولانا بدرالدین صاحب سجادہ نشیں خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پٹنہ، قطب دوراں حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ خانقاہ رحمانی مونگیر کی تائید وحمایت سے ۱۹۲۱ءمیں امارت شرعیہ کا قیام عمل میں آیا‘‘
اس اقتبا س میں امارت کےبانی اور حمایت کرنے والوں کاجو نام شامل ہے،ان میں کوئی ایک ایسا نہیں جن کے نزدیک میلاد النبی ﷺ بدعت ناجائز اور گمرہی ہو ۔حضرت شاہ بدرالدین پھلواریوی نے اپنے وجودکے ہر دور میں بارہویں شریف کے انعقاد اور تبرکات کی زیارت سےیہی ثابت کیاکہ بارہویں شریف مناناجائز و کارثواب ہے ۔ مولانا محمد علی مونگیری جنہیں مضمون نگار نے ’’قطب دوراں ‘‘کہاہے ،وہ بھی محفل میلاد نبی کے قائل وعامل رہےہیں ۔آج بھی خانقاہ رحمانی میں بارہویں شریف کا اہتمام ہوتاہے ———– اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ امارت کے بانی وحامی سب کے سب میلادی رہے ہیں ،سلام وقیام ،فاتحہ ونیاز اور اعراس وزیارت ِتبرکات ان سب کے نزدیک کار ثواب اور حصول برکات کا ذریعہ وواسطہ رہاہے؟ اگر یہ واقعہ ہے تو امارت کو اس کی وضاحت کرنی چاہئے کہ جب امارت کے ’’امیر شریعت‘‘ کے یہاں جشن عیدمیلاد النبیﷺ جائز وکار ثواب ہے توان کے ہاتھ پہ بیعت کرنے والوں کے نزدیک یہ عمل بدعت وناجائز کیسےہے۔اور ان کے ماتحتوں نے آخراپنے بانی کے نظریات کی مخالفت کیوں کی ؟ کیا اطاعت امیر کامطلب ان کے موقف سے مخالفت اور ان کے معمولات کی تضلیل و تنکیرہے؟
چلتے چلتے یہ ایک آخری الجھن بھی دور کردی جائے تاکہ بات تشنہ نہ رہے۔ امارت کی پوری تاریخ میںچند ایک کوچھوڑ کر جتنے امیر شریعت ہوئے، وہ سب کے سب خانقاہی رہے ہیں یہ جگ ظاہر ہے ۔حضرت مولاناسید شاہ بدرالدین علیہ الرحمہ حضرت مولانا سید شاہ محی الدین علیہ الرحمہ ،یہ دونوں خانقاہ مجیبیہ کے صاحب سجادہ تھے اور خانقاہ رحمانی (مونگیر)سے منتخب شدہ تینوں حضرات جناب منۃ اللہ رحمانی صاحب،جناب ولی رحمانی صاحب اورنو منتخب امیر جناب سید احمد ولی فیصل رحمانی صاحب، سب خانقاہی ہیں ۔امارت کے حالیہ فتویٰ کے مطابق میلاد النبی منانا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور یہ کفار کے مشابہ عمل ہے ۔تو بتایا جائے کہ:
(۱) یہ پانچوں حضرات جو خانقاہی نظام کے حامل ہیں اوران کے یہاں اس تاریخ میں تبرکات کی زیارتیں ہوتی رہی ہیں،محافل کا انعقادہوتارہاہے، کیا یہ سب بدعتی تھے؟اور ان کایہ عمل مشابہ بالکفار تھا ؟
(۲) اگر نہیں تو کیوں ؟ آخرایک ہی عمل، ایک جگہ جائز اور دوسری جگہ ناجائزکیسے ؟کیااس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ امارت کے یہاں فتویٰ کو دوہرامعیارہے؟
(۳) اوراگریہ سب بدعتی تھے؟ اوران کایہ عمل مشابہ بالکفار تھا،توپھراپنے ہی فتویٰ کی روشنی میںبتاجائے کہ کیا کسی بدعتی وگمراہ کو امیر شریعت بنانا صحیح ہے؟
(۴) اگر صحیح ہے تو قرآن وسنت سے اس کے حوالہ دئے جائیں——— اور اگر نہیں——– تو پھربتایاجائے کہ کیا ایسے امیرکی اطاعت ،جو امارت ہی نظریات کے سبب بدعتی وگمراہ ہو،فرض ہے؟
(۵) آخر میں یہ بھی بتادیاجائے کہ دنیاکی تمام بدعات کو چھوڑکر اگر میلاد النبی کی بدعت کے خلاف واویلامچاناہی امرضروری ہے تو اپنے گھر کے جوآدمی اس کے جواز کے قائل اور اس کے انعقاد کے مرتکب رہے ہیں، انہیں بدعتی کہنے میں کون امر مانع ہے ؟ بلکہ انہیںکبھی اتفاق رائے سے اور کبھی باضابطہ ووٹنگ کے ذریعہ ’’امیر شریعت ‘‘ منتخب کرنا، ایک بدعتی کو اعزاز بخشناہےکہ نہیں؟ کیا یہ عمل شرعادرست ہے؟
واضح رہے کہ یہ سارے سوالات ،امارت کے ترجمان امارت ہفتہ وار’’نقیب ‘‘میں شائع مضمون اور’’فتاویٰ امارت شرعیہ‘‘کے مندرجات میں تضاد بیانی کے سبب پیداہوئے ہیں ۔ہم نے صرف ان تمام قضیوں کو جوڑکر اس خلش کولفظوں کی زبان دی ہے، جو ہر پڑھے لکھے افراد کے ذہن میں کانٹے کی طرح چبھ رہاہے ۔اب اس خلش کاازالہ امارت کے ارباب حل وعقد کب تک کرتے ہیں یہ ان پہ منحصر ہے۔


الرضا نیٹورک کا اینڈرائید ایپ (Android App) پلے اسٹور پر بھی دستیاب !
الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ  (۲)جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کو ٹویٹر پر فالو کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں۔

مزید پڑھیں:

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

آسام

آسام میں سیلاب کی دردناک صوت حال

آسام میں سیلاب کی دردناک صوت حال ✍🏻— مزمل حسین علیمی آسامی ڈائریکٹر: علیمی اکیڈمی …

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔