نوجوان ہی  قوموں کا قیمتی اثاثہ اور تابناک مستقبل ہواکرتے ہیں : وقار اعظم مصباحی

نوجوان ہی  قوموں کا قیمتی اثاثہ اور تابناک مستقبل ہواکرتے ہیں: وقار اعظم مصباحی
تحریر :  وقاراعظم مصباحی،بنارس… 
          کسی بھی قوم کا قیمتی اثاثہ و سرمایہ اور روشن و تابناک مستقبل نوجوان ہوا کرتے ہیں وہ چاہیں تو دنیا کو رشک جنت بنادیں اور چاہیں تو نمونہ جہنم، کسی بھی قوم کی حقیقت جاننے کے لیے ان کے نوجوانوں کا کردار دیکھا جاتا ہے، اگر نوجوان اوامر و نواہی پر کما حقہ کاربند ہوں اور مقاصد میں لگے ہوئے ہوں تو سمجھ لیجیے کہ وہ قوم کامیاب ہے لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو پھر یقین مانیں اس قوم کا مستقبل تاریک ہے… 
         نوجوان اپنی اسی عمر میں عظیم مقصد اور منصوبے کو بحسن و خوبی پایۂ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں بس انہیں حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے ، آقا علیہ السلام اطاعت ربانی میں تربیت پانے والے نوجوانوں کی تعریف اور حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے، اور اہم امور کی انجام دہی کے لیے ان کا انتخاب فرمایا کرتے تھے…
ہجرت مدینہ کا موقع ہے، نفسی نفسی کا عالم ہے، کفار کے مظالم عروج پر ہیں، شب ہجرت ایک اہم ذمہ داری سونپی جانے والی ہے، قریش کے نوجوان خون کے پیاسے کھڑے ہیں، ہر لمحہ تاک میں ہیں کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر نکلیں اور انہیں شہید کردیا جائے، ایسے نازک موقعے پر نگاہ نبوت نے جس نوجوان کا انتخاب کیا دنیا انہیں مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے نام سے جانتی ہے آپ نے محض سات سال کی ننھی سی عمر میں اسلام کو اپنے ناتواں کاندھے پر اٹھایا، پھر اس کو سہارا دیتے رہے یہاں تک کہ جام شہادت نوش فرمایا، شب ہجرت آپکو نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے شب باشی کا حکم دیا اور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے لیے نکل گئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم: اس رات سے زیادہ چین کی نیند میں کبھی نہیں سویا… 
           تاریخ اسلام کے صفحات ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اہم امور کی انجام دہی کے لیے نوجوانوں کا انتخاب نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین ترجیح تھی…
آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد امت کو سب سے نازک مرحلہ جمع قرآن کا پیش آیا، اس کام کے لیے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نگاہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ پر پڑتی ہے، ان کے اخلاق و کردار کی ستائش کرنے کے بعد جمع قرآن کی خدمت ان کے حوالے کر دی اور انہیں صحابہ کا امیر نامزد کیا…
یہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ ہیں جو ابھی عمر کی دوسری دہائی میں ہیں بیس سال کی عمر ہے مگر عالم یہ ہے کہ جنگ موتہ کی قیادت فرما رہے ہیں اور ابو بکر صدیق جیسے اجلہ صحابہ ان کے لشکر میں شامل ہیں…
یہ ہیں جلیل القدر فقیہ قاضی یمن حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جن کے گرد دمشق کی جامع مسجد میں لوگ حلقہ بنائے بیٹھتے ہیں کسی مسئلے میں اختلاف ہوتا ہے لوگ آپ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان کے قول کو آخری فیصلہ تصور کرتے ہیں…
یہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ہیں جو خود بیان کرتے ہیں کہ جس وقت میں نے جنگ بدر لڑی اس وقت میرے چہرے پر ایک بال بھی نہ اگا تھا…
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو دیکھیں دس سال کی عمر ہے مگر ہر وقت سنت مصطفی سیکھنے میں لگے ہیں رات کی تنہائیوں میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وضو کے پانی کا اہتمام کر رہے ہیں، دریائے رحمت جوش میں آیا ارشاد ہوا: ” اللهم فقهه فى الدين  یا اللہ تو اسے دین کا فقیہ بنادے”(بخارى)
محمد بن قاسم کو پڑھیے جنہوں نے محض سترہ سال کی عمر میں سندھ پر فتح کا جھنڈا گاڑ دیا اور کفر کی تاریکی کو ایمان کی روشنی میں تبدیل کر دیا…
طارق بن زیاد کو دیکھ لیجیے محض مٹھی بھر مجاہدوں کی مدد سے لاکھوں کے لشکر کو شکست دے کر اندلس (اسپین ) کو فتح کیا..
یہ دیکھیں امام مالک ہیں جن کا شمار ائمہ اربعہ میں ہوتا ہے، علم کی طلب میں تنہا گھر سے نکل پڑے، مختلف دروس میں شرکت فرمائی، کبھی عطار کے درس میں جا رہے ہیں تو کبھی ربیعہ کے درس سے مستفید ہو رہے ہیں، ملک شام سے آئے امام زہری سے جب لوگوں نے حدیث سنانے کی درخواست کی تو انہوں نے اپنی سند سے ساٹھ حدیثیں سنائیں اور امام مالک نے اسی مجلس میں تمام احادیث مع سند ازبر کر کے سنادی، اس پر امام زہری حیران و ششدر رہ گئے..
امام شافعی کی ذات دیکھیں جن کی ولادت سرزمین فلسطین میں ہوئی، چھوٹی سی عمر میں ان کی ماں انہیں لے کر یمن چلی گئیں پھر وہاں سے مکہ مکرمہ کوچ کیا، مکہ میں آپ حرم شریف میں درس کے لیے جا رہے ہیں، ابتدا میں درس کو کاپی میں نقل کرتے تھے لیکن ایک وقت وہ بھی آیا جب گھر کاغذ سے بھر گیا، آپ نے سن بلوغ سے پہلے مؤطا شریف یاد کرلی، تشنگی علم کی مزید سیرابی کے لیے آپ نے مصر و عراق کے شیوخ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، جس وقت امام شافعی مسند افتا پر جلوہ افروز ہوئے اس وقت ان کی عمر ١٥ سال تھی..
اسی طرح علامہ صابونی نے محض ٩ سال کی عمر میں مسند فقہ و حدیث کو زینت بخشا تھا..
تاریخ اسلام کے گلشن امام بخاری جن کا عالم یہ ہے کہ وہ خود فرماتے ہیں میں چھوٹی سی عمر میں امام داخلی کے پاس جانے لگا ایک دن وہ سند حدیث بیان کرتے ہوئے کہنے لگے *سفيان عن أبى الزبير عن إبراهيم* میں نے کہا حضرت! ابو زبیر نے تو ابراہیم سے روایت کی نہیں؟ انہوں نے مجھے جھڑکا میں نے کہا اصل کی طرف رجوع کیجیے، جب گھر میں جا کر دیکھا تو کہنے لگے لڑکے! تو پھر ابراہیم سے کون روایت کر رہا ہے؟ میں نے کہا زبیر بن عدی تو مجھ سے قلم لے کر تصحیح فرمائی، امام بخاری سے جب پوچھا گیا کہ اس وقت آپ کی عمر کتنی تھی؟ تو کہا کوئی گیارہ سال..
گیارہ سال کے بچے کو دیکھیے اور امام داخلی جیسے عظیم محدث کی سند میں تسامح پر بھری مجلس میں تنبیہ کو دیکھیے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قدرت آنے والے وقت میں ان سے کتنی عظیم خدمت لینا چاہتی تھی، عمر کے ١٨ویں سال میں ہی *قضایا الصحابة والتابعين* اور شہرۂ آفاق کتاب *التاریخ الکبیر* لکھ ڈالی…
            محترم قارئین! نوجوان ایسے ہوا کرتے ہیں، ان کی تربیت ایسے ہوا کرتی ہے تب جاکر وہ شوکت اسلامی کا باعث اور نمونۂ تقلید بنتے ہیں،
   ہمیں چاہیے کہ پوری مستعدی کے ساتھ ہر وقت کی نماز اس کے وقت پر ادا کریں، توبہ کے ساتھ ہر دن کا استقبال کریں، جو دینی خدمات انجام دے سکتے ہیں اس کے لیے تیار ہو جائیں ماضی کی غلطیوں کو بھول کر حال پر توجہ دیں اور مستقبل کے لیے جو منصوبہ بنایا ہے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی تگ و دو شروع کر دیں، اس بات کو ذہن میں رکھ کر اپنی جوانی کی طاقت کا بہترین استعمال کریں کہ ہمیں یوں ہی نہیں پیدا کیا گیا ہے اور بلا بوچھ گچھ کے ہمیں چھوڑا بھی نہیں جائے گا، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو…
  • Posts not found

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

Karbala

واقعہ کربلا اور آج کے مقررین!!

واقعہ کربلا اور آج کے مقررین!! تحریر: جاوید اختر بھارتی یوں تو جب سے دنیا …

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔