تعلیمات حضرت محی الدین سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی

*تعلیمات حضرت محی الدین سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی*
*تحریر: حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی جمشیدپور*

حضرت سیدنا شیخ محبوب سبحانی نے فرمایا کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے جبکہ محققین و متکلمین کے نزدیک ایمان نام ہے ان امور کی تصدیق کا جو نبی اکرم ﷺ لائے۔ البتہ احکام اسلام تب جاری ہوں گے جب زبان سے اقرار کرے گا اور ایمان کامل تب ہوگا جب اعمالِ صالحہ پائے جائیں گے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:(ترجمہ) اللہ نے وعدہ کیاہے ان سے جوان میں ایمان والے اور اچھے کاموں والے ہیں بخشش اور بڑے ثواب کا۔(پارہ 24، رکوع12،سورۃ فتح ، آیت 29)
بے شک جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے فردوس کے باغ ان کی مہمانی کے لئے ہیں۔(سورۃ کہف،آیت 106) تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو اسے چاہئے کہ نیک کام کرے اوراپنے رب کی بندگی (عبادت) میں کسی کو شریک نہ کرے۔ (سورہ کہف ،آیت۱۱۰)اس زمانہِ محبوب کی قسم !بے شک آدمی ضرور نقصان میں ہے مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے۔(سورہ عصر،آیت1تا3)یہاں ٹوٹے اور گھاٹے سے استثنا کے لئے ایمان کی شرط کے ساتھ عملِ صالح کی قید بھی لگائی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کا دعویٰ اتباع رسول کے بغیر فضول ہے۔ عاقبت بے خبر کے طلب گاروں کو عبادت کے بغیر چارہِ کار نہیں۔
اے لڑکے، تو دنیا میں بقا اور عیش کے لئے نہیں پیدا کیا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ امور کو تبدیل کردے ۔تو نے سمجھ لیا ہے کہ اللہ اتعالیٰ کی اطاعت کے لئے
لا الہ الاللہ محمد رسول اللہ پڑھ لینا کافی ہے، یہ تیرے لئے اسی وقت مفید ہوگا جب تو اس کے ساتھ کچھ اور امور (اعمالِ صالحہ) ملائے گا۔ ایمان اقرار اور عمل کا نام ہے۔ جب تو گناہوں ،لغزشوں میں مبتلا اور احکام الہٰیہ کی مخالفت کا مرتکب ہوگا ان پر اصرار کرے گا ، نماز، روزہ، صدقہ اور افعال خیر ترک کرے گا تو یہ دو شہادتیں تجھے کیا فائدہ دیں گی۔ جب تو نے لاالہ الاللہ کہا تو یہ ایک دعویٰ ہے، تجھے کہاجائے گا کہ اس دعوے پردلیل کیاہے ؟اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کا حکم دیا ہے ان کا ادا کرنا، جن سے منع کیا ہے ان سے باز رہنا،آفتوں پر صبر کرنا اور تقدیرِ الٰہی کو تسلیم کرنا اس دعویٰ کی دلیل ہے۔جب تونے یہ عمل کئے تو اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کے بغیر مقبول نہ ہوں گے۔ قول بغیر عمل کے اور عمل بغیر اخلاص اور اتباع سنت کے مقبول نہیں۔(الفتح الربانی ،صفحہ 10، غنیۃ الطالبین اردو صفحہ 52، عبد القادر جیلانی غوث الاعظم)
*عقیدہ توحید:*
عقیدہ توحید پر قائم رہے ، اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ،اس پر قائم رہے، اللہ کی معرفت یہ ہے کہ انسان اپنے دل کو اللہ تعالیٰ سے لگائے رکھے کہ وہ اس کا نگہبان و محافظ ہے۔ اسے پالنے والا بزرگ ہے ، اس کی بادشاہی میں اس کا کوئی شریک نہیں ، وہ اپنے وعدے کا سچا ہے ،جس بات کی ضمانت دیتا ہے اسے پورا کرنے والا ہے جس چیز کی طرف بلاتا ہے اسے پورا کرتاہے۔ اس کا جو بھی وعدہ ہے پورا فرمائے گا ۔ اس کی وعیدیں (ڈرانا)سچی ہیں اور پوری ہوکر رہیں گی۔ وہ ثواب و عذاب کا مالک ہے اس کا کوئی شبیہہ اور ہم مثل نہیں۔ وہ کفایت کرنے والا اور رحم فرمانے والا، محبت کرنے والا،سننے جاننے والاہے ۔ وہ غالب اور حکمت والا ہے۔
*اللہ تعالیٰ کے لئے عمل:*
بندہ اس بات کا علم رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کچھ کام کرنے کا حکم دیا ہے اور بعض باتوں سے منع فرمایا ہے جس بات کاحکم دیا وہ اس کی اطاعت ہے اور جسے روکا وہ اس کی نافرمانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے عمل کی پہچان یہ ہے کہ انسان قرآن و سنت کے مطابق چلنے کامکمل عہدکرلے ۔کوئی بھی عمل کرتے وقت اس کے دل میں غیر خدا کا تصور نہیں ہونا چاہئے، ان لوگوں میں سے نہ ہو جنھوں نے ظاہری گناہوں کو چھوڑا لیکن باطنی گناہوں سے پرہیز نہ کیاجائے۔ یہ تمام گناہوں کی اصل اور بنیاد ہیں۔
*آفاتِ نفس:*
نفس کی آفات میں سے ایک بات یہ ہے کہ انسان کی طبیعت اپنی تعریف، اچھے ذکر اور ستائش کو شیریں خیال کرے ۔ بعض اوقات اس مقصد کے حصول کے لئے وہ عبادت کے بھاری بوجھ بھی اٹھاتا ہے اور اس پر ریاکاری اور منافقت کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ اس کی نشانی یہ ہے کہ جب یہ تصور نہ ہو اور لوگ اس کو اچھا نہ کہیں اس وقت (عبادت میں) سستی اور کمزوری واقع ہوجاتی ہے۔
*وعظ و ارشاد:*
سیدنا غوث الاعظم ہفتے میں تین دن خطاب فرماتے۔ جمعہ کی صبح ، منگل کی شام اور اتوار کی صبح۔ طریقہ یہ تھا کہ پہلے قاری صاحب تلاوت قرآن پاک کرتے اس کے بعد آپ خطاب فرماتے۔ حضرت غوث الاعظم فرماتے ہیں کہ ابتدا ءً مجھ پر وعظ و تقریر کا اس قدر غلبہ ہوتا کہ خاموش رہنا میری طاقت سے باہر ہوجاتا۔ میری مجلس میں دو یا تین آدمی سننے والے ہوتے مگر میں نے سلسلہ کلام جاری رکھا ۔پھر لوگوں کا ہجوم اس قدر بڑھا کہ جگہ تنگ ہوگئی۔پھر عید گاہ میں خطاب شروع کیا وہ بھی ناکافی ہوئی تو شہر سے باہر کھلے میدان میں اجتماع ہونے لگا اور ایک ایک مجلس میں ستر ہزار کے قریب سامعین جمع ہونے لگے ۔ چار سو افراد قلم ودوات لے کر آپ کے ملفوظات جمع کیا کرتے تھے۔(اخبار الاخیارفارسی،صفحہ12۔عبد الحق محدث دہلوی:شیخ محقق)جب آپ کرسی پر تشریف فرماہوتے تو مختلف علوم میں گفتگو فرماتے اور ہیبت اتنی ہوتی کہ مجمع پر سناٹا چھا جاتا پھر اچانک فرماتے :قال ختم ہوا اور اب ہم حال کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ یہ سنتے ہی سامعین کی حالت میں عظیم انقلاب رونما ہوتا۔ کوئی آہ و بکا میں مصروف ہوتا،کوئی مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہا ہوتا، کسی پر وجد کی کیفیت طاری ہوتی اور کوئی کپڑے پھاڑ کر جنگل کی راہ لیتا۔کچھ ایسے بھی ہوتے جن پر شوق اور ہیبت کا اس قدر غلبہ ہوتا کہ طائر روح قفسِ عنصری سے ہی پروازکر جاتی۔غرض یہ کہ حاضرین اور سامعین میں سے کوئی بھی متاثر ہوئے بغیرنہ رہتا۔(اخبار الاخیارفارسی،صفحہ12۔عبد الحق محدث دہلوی:شیخ محقق)حضرت شیخ محبوب سبحانی فرماتے ہیں کہ میرے ہاتھ پرپانچ ہزار سے زیادہ یہود و نصاریٰ تائب ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ رہزنوں اور فسق و فجور میں مبتلا افراد جنھوں نے میرے ہاتھوں پر توبہ کی ان کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔(قلائد الجواہر ، صفحہ 19،علامہ محمد بن یحییٰ تاذانی، غنیتہ الطالبین اردو صفحہ37)
حضرت شیخ محبوب سبحانی عموماً عربی میں خطاب فرماتے لیکن بعض اوقات فارسی میں خطاب فرماتے ۔ اسی لئے آپ کو ذو البیانین و اللسانین اور امام الفریقین کہتے ہیں۔ آپ کی کرامت یہ تھی کہ دور و نزدیک کے لوگ یکساں طور پر آپ کی آواز سنتے تھے۔ آپ کی ہر مجلس میں کوئی نہ کوئی یہودی یا عیسائی مشرف بہ اسلام ہوتا، ڈاکو ، قاتل اور دیگر جرائم پیشہ اور بد عقیدہ لوگ تائب ہوتے۔(قلائد الجواہر ، صفحہ 19،اخبار الاخیار فارسی، صفحہ 2، زبدۃ الاسرار صفحہ57)
*وہ علم جس کے ساتھ عمل نہ ہو بے کار ہے:*
علم چھلکاہے اور عمل مغز۔ چھلکے کی حفاظت اس لئے کی جاتی ہے کہ مغز محفوظ رہے اور مغز کی حفاظت اس لئے کی جاتی ہے کہ اس سے تیل نکالا جائے۔ وہ چھلکا کس کام کا جس میں مغز نہ ہو اور وہ مغز بے کار ہے جس میں تیل نہ ہو۔ علم ضائع ہوچکا ہے کیونکہ جب علم پر عمل نہ رہا تو علم بھی ضائع ہوگا۔ عمل کے بغیر علم کا پڑھنا اور پڑھانا کیا فائدہ دے گا؟ اے عالم! اگر تو دنیا اور آخرت کی بھلائی چاہتاہے اپنے علم پر عمل کر اور لوگوں کو علم سکھا ۔ایک عالم کے لئے ضروری ہے کہ اس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو ۔ایک خطیب کے لئے ضروری ہے وہ جو بولے اس پر عمل کرے ورنہ سامعین پر کما حقہٗ اثرنہ ہوگا۔ سیدنا غوث الاعظم ص ایک دن مدرسہ نظامیہ میں خطاب فرمارہے تھے۔ فقرا اور فقہا کی جماعت حاضر تھی۔ اتنے میں چھت سے ایک بڑا سانپ آپ کی گود میں آگرا۔ حاضرین خوفزدہ ہوکر پیچھے ہٹ گئے۔ وہ سانپ آپ کے کپڑوں میں داخل ہوگیا اور گردن کے گرد لپٹ گیا۔آپ نے نہ تو سلسلہ کلام قطع کیا اور نہ ہی پہلو بدلا۔ وہ الگ ہوکر دم کے بل کھڑا ہوگیا اور کچھ بات کی اور چلا گیا۔ حاضرین نے عرض کیا یہ کیا ماجرا تھا؟ حضرت شیخ نے فرمایا اس نے مجھ سے کہا میں نے متعدد بار اولیا ء کو آزمایا مگر کوئی بھی آپ کی طرح ثابت قدم نہ رہا ۔ میں نے کہا قضا و قدر ،حرکت و سکون میں لائی ہے۔ میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ میرے قول و فعل میں تضاد پایا جائے۔(غنیتہ الطالبین اردو صفحہ 42،الفتح الربانی، عبد القادر جیلانی غوث الاعظم)
پہلے فرائض پھر نوافل:
صاحبِ ایمان کو چاہئے کہ پہلے فرائض ادا کرے ۔جب ان سے فارغ ہوجائے تو سنتیں اداکرے پھر نوافل اور فضائل میں مشغول ہو ۔ فرائض کے ادا کرنے سے پہلے سنتوں اورنفلوں میں مصروف ہوا تو وہ مقبول نہ ہوں گے بلکہ وہ ذلیل کیاجائے گا۔(قلائد الجواہر عربی، مقالہ 47،صفحہ 90)
علماء اور اولیاء سے بغض اور ان کی بے ادبی نہ کر:
اللہ تعالیٰ اور اس کے خواص (ولیوں) سے بغض (دشمنی) نہ رکھ اے جاہل! ان کی غیبت کا ذائقہ نہ چکھ کیوں کہ یہ زہر قاتل ہے۔ خبردار! زینہار!زینہار! ان کی برائی کے درپے نہ ہو کیوں کہ ان کے بارے میں غیرت کی جاتی ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ اور اولیائے کرام کے حق میں حسنِ ظن نہیں رکھتا ان کی بارگاہ میں تواضع اور انکساری اختیار نہیں کرتا حالانکہ وہ رؤسا اور امرا ہیں، ان کے سامنے تیری کیا حیثیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حل و عقد کا سلسلہ ان سے وابستہ کر دیا ہے۔ انہی کی بدولت آسمان بارش برساتا ہے اور زمین سبزہ اگاتی ہے۔ تمام مخلوق ان کی رعایا ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک پہاڑ کی طرح ثابت قدم ہے جسے آفات و بلیات کی آندھیاں اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی۔ وہ اپنے نفوس یا دوسروں کے طالب ہوکر مقامِ توحید اور اپنے مولا کی رضا سے نہیں ہٹتے ۔پہلے لوگ دین اور دلوں کے اطبّا ، علماء و اولیاء اور صالحین کی تلاش میں مشرق و مغرب کا چکر لگاتے تھے،جب انھیں ان میں سے کوئی مل جاتا و ہ اس سے اپنے دین کی دواطلب کرتے تھے اور آج تم فقہا ، علماء اور اولیاء سے بغض رکھتے ہو جو آداب اور علم سکھاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ تم دوا حاصل نہیں کرپاتے۔
اگر تجھے کوئی مشکل درپیش ہو اور تو صالح اور منافق میں فرق نہ کرسکے تو رات کو اٹھ کر دو رکعات نماز ادا کر اور اس کے بعد یہ دعا مانگ۔اے اللہ!اپنی مخلوق میں سے صالحین تک میری رہنمائی فرما، اس شخصیت کی طرف میری رہنمائی فرما جو مجھے تیری راہ دکھائے، تیرا طعام مجھے کھلائے ، تیرا مشروب مجھے پلائے، تیرے قرب کے نور کا سرمہ میری آنکھوں میں لگائے اور تقلید کے طور پر نہیں بلکہ کھلم کھلا جو دیکھے مجھے بتادے ۔
*دینی تبلیغ کا معاوضہ* :
میں تمام زندگی علماء و اولیائے کرام کے بارے میں حسن ظن رکھتارہا ہوں اور ان کی خدمت کرتا رہاہوں۔اس چیز نے مجھے فائد ہ دیا،میں تم سے نصیحت اور خطاب کا معاوضہ نہیں چاہتا، میرے خطاب کا معاوضہ یہ ہے کہ اس پر عمل کرو ۔ میں تجھے نصیحت کرتاہوں، نہ تو تیری تلوار سے ڈرتا ہوں اور نہ ہی تیرے سونے(دولت) کا طلب گار ہوں (الفتح ربانی، مجلس14صفحہ 75،مجلس 42صفحہ137، مجلس24صفحہ 93،مجلس39صفحہ 137،مجلس 14صفحہ 51 غنیہ الطالبین صفحہ 52تا54)
*محی الدین:*
حضرت شیخ فرماتے ہیں 511 ہجری میں جمعہ کے روز سیاحت سے برہنہ پا بغداد واپس آرہاتھا۔ میراگزر ایک مریض کے پاس ہوا جس کا رنگ بدلا ہواتھا اور جسم کمزور تھا۔ اس نے مجھے کہا۔ اسلام علیک یا عبدالقادر ! میں نے سلام کاجواب دیا ۔ اس نے مجھے قریب بلاکرکہاکہ مجھے بٹھادو ۔ میں نے اسے بٹھادیا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس کا جسم صحت مند ہوگیا۔ رنگ نکھر گیا اور حالت سدھر گئی ۔ اس نے کہا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟میں نے کہا نہیں۔ اس نے کہا میں دین ہوں، میں موت کے کنارے پہنچ چکا تھا تمھاری بدولت اللہ تعالیٰ نے مجھے زندگی عطا فرمادی ہے ۔ اس سے رخصت ہوکرجامع مسجد پہنچا توایک شخص نے یاسیدی محی الدین کہتے ہوئے مجھے پکارا۔ پھر کیا تھا ہر طرف سے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور یا محی الدین کہتے ہوئے میرے ہاتھوں کو بوسہ دینے لگے۔ سیدنا غوث الاعظم فرماتے ہیں ۔ ان لوگوں کی بات نہ سنوجو اپنے نفسوں کو خوش کرتے ہیں ۔ بادشاہوں کے سامنے دنیا داروں کے سامنے ذلت اختیار کرتے ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ کے اوامر(احکام) نہیں سناتے ۔ اگرسنائیں بھی سہی تو ازراہِ منافقت اور تکلیف سنائیں گے۔ اللہ تعالیٰ زمین کو ان سے اورہر منافق سے زمین کو پاک فرمادے یا انھیں توبہ کی توفیق دے اور اپنے دروازے کی جانب ہدایت عطا فرمائے۔ مختصریہ کہ حضرت سیدنا غوث الاعظم ص نے شریعت و طریقت کی تعلیمات بے خوف وخطر بیان کیں اور بدمذہب اورفریبی کو راہ راست کی طرف بلایا۔ یقیناًوہ خوش بخت لوگ تھے جو حضرت کے ہاتھوں تائب ہوئے اور اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کا انتظام کرگئے۔(قلائد الجواہرصفحہ57، علاء الدین یحییٰ تاذنی ،الفتح الربانی مجلس 62صفحہ 245، مجلس 62 صفحہ 244 غنیتہ الطالبین صفحہ 56)آپ کی تصنیفات میں غنیتہ الطالبین ، فتوح الغیب اور فتح ربانی بہت مشہور و معروف ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو حق کہنے ، حق بولنے، حق لکھنے اور حق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے نقشِ قدم پرچلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین! 
———
 حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی
خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ
اسلام نگر، کپالی،پوسٹ:پارڈیہہ،مانگو، جمشیدپور(جھارکھنڈ)پن 831020
رابطہ: 09386379632

الرضا نیٹورک کا موبائل ایپ کوگوگل پلے اسٹورسے ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں۔

مزید پڑھیں:

  • Posts not found

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

گنبد اعلیٰ حضرت

حضور مفسر اعظم ہند بحیثیت مہتمم: فیضان رضا علیمی

یوں تو حضور جیلانی میاں علیہ الرحمہ کو اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری نے بسم اللہ خوانی کے وقت ہی جملہ سلاسل کی اجازت و خلافت مرحمت فرما دی تھی اور آپ کے والد ماجد نے بھی ۱۹ سال کی عمر شریف میں ہی اپنی خلافت اور بزرگوں کی عنایتوں کو آپ کے حوالہ کر دیا تھا لیکن باضابطہ تحریر ی خلافت و اجازت ، نیابت و جانشینی اور اپنی ساری نعمتیں علامہ حامد رضا خان قادری نے اپنی وفات سے ڈھائی ماہ قبلہ ۲۵۔

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔