ضمیر کی آواز: حقیقت اور کیفیت!!

ضمیر کی آواز: حقیقت اور کیفیت

کوئی انسان دنیا میں ایسا موجود نہیں جو اپنے اندر ضمیر نام کی ایک چیز نہ رکھتا ہو، اس ضمیر میں لازماً، بھلائی اور برائی کا ایک احساس پایا جاتا ہے، اور چاہے انسان ، کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، اس کا ضمیر، اسے کوئی برائی کرنے اور کوئی بھلائی نہ کرنے پر ضرور ٹوکتا ہے،یہ (احساس) اِس بات کی صریح دلیل ہے کہ انسان نِرا حیوان نہیں بلکہ ایک اخلاقی وجود ہے، اُس کے اندر فطری طور پر بھلائی اور برائی کی تمیز پائی جاتی ہے ۔ وہ خود اپنے آپ کو اپنے اچھے اور برے افعال کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کبھی گناہ کے فلسفے کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے، کبھی خاندانی شہرت پر داغ لگنے کی دھمکی دیتی ہے، کبھی ذاتی بے راہ روی کے طعنے دیتی ہے، کبھی آخرت کے عذاب کا خوف دلاتی ہے، کبھی معاشرتی تنقید کا ڈر ذہن میں بٹھاتی ہے، کبھی قانونی حجاب کے پردے ہٹانے کی کوشش کرتی ہے اور کبھی احتساب کا خوف رکاوٹ بننے کی کوشش کرتا ہے ۔

لیکن جب کوئی طریقہ کامیاب نہ ہو، بے عملی اور بے راہ روی غالب رہے تو جرم گناہ کے ساتھ یہی ندامت کا روپ سامنے لاتی ہے۔۔۔۔یہ وہ خیر کا عنصر ہے جو شر پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے ۔ندامت کے جھٹکے اور غلطیوں سے توبہ اس کے روپ ہیں، جو جرم گناہ کو مسخ کر دیتے ہیں ۔یہ منبع ہے جو انسان کے اندر سے پھوٹتا ہے، یہ دل و دماغ کی وہ کیفیتیں ہیں جو خواہشات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

چونکہ انسان دنیاوی طلب میں اس قدر حریص اور بے پرواہ ہوتا ہے ۔ لذت کے شوق اور منعفت میں سبقت لے جانے کے جذبے سے اخلاقی بندھن سے بے پرواہ، رزقِ حلال اور حرام میں تمیز کئے بغیر آگے بڑھنے میں سبقت، آسائشات اور خواہشات کے دھارے میں بڑھتا چلا جاتا ہے تو اس طرح انسانی شخصیت میں ضمیر کی طاقت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے ۔

جب یہ کیفیت زیادہ طاقتور اور با اثر ہوتی ہے تو اندر کا انسان مردہ ہو جاتا ہے جو اخلاقی کیفیات کو محسوس نہیں کرتا۔اچھائی اور برائی کی تمیز ختم ہو جاتی ہے ۔حلال اور حرام کی پہچان رک جاتی ہے، لوگوں کی محسوسات کی رسائی کانوں تک پہنچنا بند ہو جاتی ہے اور یہی معاشرتی اکائی کی بد ترین مثال ہے ۔

نیز اس کے برعکس اگر انسان رزق حلال اور حرام میں تمیز کر سکے ، بچوں کی پرورش میں رزقِ حلال کی خواہش کرے، جدوجہد کو شعار بنائے، محنت کی عظمت کو پہچانے تو ضمیر کی بقاء اس کی بداعمالی میں رکاوٹ بنتی ہے، اس سے انسانیت کی بقاء اور معاشرتی پھیلاؤ میں خرابیاں کم ہوتی چلی جاتی ہے،

ذرا سوچئے! یہ زمین کی زرخیزی اس میں دفن خزانوں کے کھوج کی کس نے راہ دکھلائی۔ جب یہ سب کچھ مالک کائنات کی عطاء ہے تو انسان میں انسانیت کیوں نہیں ۔ ہم اس کائنات میں خوبصورتی کا رنگ بھرنے کی بجائے کیوں گندگی پھیلا رہے ہیں؟؟

اس ذات مقدس نے ہمیں سب کچھ دینے کے باوجود انسانیت کی بقاء کے لیے ہمیں تعلیم دی، کردار کی درستگی کے لیے انسانوں میں انبیاء علیہم السلام بھیجے، انبیاء علیہم السلام کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوئی اور انتہا ہمارے آقا ومولیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر آ کر ہوئی۔۔۔

بدقسمتی سے اس کے بعد کئی لوگوں نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا لیکن یہ ایک اٹل فیصلہ ہے کہ اس کائنات کے آخری نبی حضرت محمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی ہیں ۔ہمارے عقیدے کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام اس کائنات میں تشریف لائے ۔

بہر کیف! انبیاء کرام کے بعد اولیاء اور صوفیاء کا دور شروع ہوتا ہے، پہلے ولی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ٹھہرے اور پھر ان کی لڑیاں اور کرنیں بکھرتی چلی گئیں، ان کے کردار کی روشنی ہماری رہنمائی کے لیے نمونہ بنی۔پھر معاشرتی پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ ہمیں دینی وسعت دی گئی، ضابطے بنانے کی اہلیت دی گئی۔ ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے انتظامی چھتری دی گئی، رزق حلال کے حصول کے لیے تمام اجزاء انسانی مکمل دئیے گئے۔۔۔نیز سوچ کے دائرے، کون و مکاں کی گہرائیوں کو جاننے کی اہلیت دی گئی،

کہاں ہیں وہ خلوص کے رشتے جنہوں نے اخوت اور محبت کی بنیاد رکھی، کہاں گئے وہ گنج ہائے گراں مایہ جنہوں نے درس انسانیت دیا، ہماری زندگیاں دوسروں کے رحم و کرم پر کیوں ہیں، ہم انسانیت کو مجبور بنائے ذاتی اغراض کی رو میں کیوں بہتے جا رہے ہیں ؟۔۔۔

ہم مجبوریوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں، ہم رسم و رواج کے پابند اس لیے ہیں کہ لوگ ہمیں بڑا سمجھیں، ہم نمائش کے پابند اس لیے ہیں کہ لوگ ہمیں اپنی اصلیت سے بڑھ کر جانیں، ہم جھوٹ کا سہارا اس لیے لیتے ہیں کہ سچائی سے ہمیں ڈر لگتا ہے، ہم تعریف سننا اس لیے پسند کرتے ہیں کہ ہماری شخصیت میں اس بات کی کمی ہوتی ہے۔۔

ہم قانون کو اس لیے توڑتے ہیں کہ لوگ ہمیں قانون سے بالاتر سمجھیں، ہم لوٹ مار اس لیے کرتے ہیں کہ دولت کے بغیر ہم شخصیت کو نامکمل پاتے ہیں، ہم انصاف اس لیے نہیں کرتے کہ رزق حرام نے ہمارے ضمیر مردہ کر دئیے ہیں۔۔۔

ہم دوسروں کو اپنانے کی کوشش اس لیے کرتے ہیں کہ ہماری شخصیت نامکمل ہوتی ہے، ہم میں خود احتسابی نہیں، زندگی کے سفر میں جب نظر پڑتی ہے تو عجب تصویر سامنے آتی ہے،آج ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ وسائل کم اور مسائل زیادہ ہو گئے ہیں اور یہ مسائل صرف معاشی نہیں بلکہ غیر ضروری بھی ہیں، اب محبتیں صرف کم نہیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں، نفرتوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔۔۔

رشتوں کی کشش بھی مال و زر سے ناپی اور تولی جا رہی ہے، جھوٹ اور فریب میں بڑھتا جا رہا ہے آؤ آج بھی ہم غور کریں کہ ہم نے کہاں کا قصد کیا اور کہاں چل پڑے۔۔

اقسام؛
شاید اس حقیقت سے انسان بہت حیران ہو جائے گا، لیکن اس اندرونی معیار کی کئی قسمیں موجود ہیں اُن میں سے پہلی قسم ذاتی ضمیر ہے، جس میں محدود توجہ مرکوز ہے، اس کی مدد سے، کسی شخص کو یہ بتاتا ہے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے،ضمیر کا اگلا تصور ان لوگوں کے مفادات اور اعمال کا احاطہ کرتی ہے جو ذاتی نوعیت کے اثرات سے نمٹنے کے لیے نہیں اس کی حدود ہیں کہ یہ خاص طور پر ایسے لوگوں کو خدشہ کرتا ہے جو ایک مخصوص گروپ کے ممبر ہیں،اور تیسری قسم روحانی کہ بہت سے لوگوں نے ان کی زندگی میں کم از کم ایک بار اس سوال سے پوچھا اور اسی طرح اگر کوئی اندرونی آواز نہیں تھی تو اس شخص کو فرق نہیں ہوگا کہ کون سا عمل اچھا ہے اور کون برا ہے ۔

یعنی اس معیار کے بارے میں بھول جاتے ہیں اور اس طرح خود کو دھوکہ دیتے ہیں دوسری طرف اس اندرونی معیار کی وجہ سے ایک شخص کچھ اعمال انجام دیتا ہے کہ کیا اچھا ہے اور برا کیا ہے۔۔الحاصل : اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے دِل میں نیکی اور بدی کو پہچاننے کی ایک قوّت رکھی ہے، جس طرح ظاہری آنکھیں اگر اندھی نہ ہوں تو سیاہ و سفید کے فرق کو پہچانتی ہیں، اسی طرح دِل کی وہ قوّت، جس کو “بصیرت” کہا جاتا ہے، صحیح کام کرتی ہو تو وہ بھی نیکی اور بدی کے فرق کو پہچانتی ہے۔

اگر آدمی کوئی غلط کام کرے تو آدمی کا دِل اس کو ملامت کرتا ہے اسی کو “ضمیر” کہا جاتا ہے، لیکن جب آدمی مسلسل غلط کام کرتا رہے تو رفتہ رفتہ اس کا دِل اندھا ہوجاتا ہے اور وہ نیکی و بدی کے درمیان فرق کرنا چھوڑ دیتا ہے، اسی کا نام “ضمیر کا مرجانا” ہے،

جن لوگوں کا ضمیر زندہ اور قلب کی بصیرت تابندہ اور روشن ہو ان کو بعض اوقات فتویٰ دیا جاتا ہے کہ فلاں چیز جائز ہے، مگر ان کا ضمیر اس پر مطمئن نہیں ہوتا، اس لیے ایسے اربابِ بصیرت ایسی چیز سے پرہیز کرتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں قرآن مجید ارشاد ہے: وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ“ اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔اللہ تعالیٰ ہمیں سچوں کی صحبت عطا فرمائے، اُن کے قرب سے (ہماری) ضمیر کو زندہ رکھے اور اچھے اور برے کی پہچان عطا فرمائے۔آمین بجاہ الشفيع المذنبين صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم..

از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی
(بانی الغزالی اکیڈمی و اعلیٰحضرت مشن، آبادپور
تھانہ (پرمانک ٹولہ) ضلع کٹیہار بہار، الھند 


الرضا نیٹ ورک کو  دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جوائن کریں:
الرضا نیٹورک کا واٹس ایپ گروپ  (۲)جوائن کرنے کے لیے      یہاں پر کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا فیس بک پیج  لائک کرنے کے لیے       یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کو ٹویٹر پر فالو کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
الرضا نیٹورک کا ٹیلی گرام گروپ جوائن کرنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔
الرضانیٹورک کا انسٹا گرام پیج فالوکرنے کے لیے  یہاں کلک کریں۔

مزید پڑھیں:

کے بارے میں alrazanetwork

یہ بھی چیک کریں

جانئے کیرالہ بورڈ کے 12ویں کے نتائج کا اعلان کب ہوگا؟ – نیوز 18 ہندی۔

[ad_1] کیرالہ بورڈ ڈائریکٹوریٹ آف ہائر سیکنڈری ایجوکیشن (DHSE) بہت جلد 12ویں کے امتحان کے …

Leave a Reply

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔